کتاب: تاریخ وتعارف مدرسہ دار الحدیث رحمانیہ دہلی - صفحہ 168
ملک اور بیرون کی علمی شخصیتوں کی مدرسے میں آمد کے موقع پر ان کے استقبال میں مخصوص پروگراموں کا انعقاد ہوتا، جن میں طلبا اپنی تقریری و دعوتی صلاحیتوں کا مظاہرہ کرتے، پھر مہمانوں کے نصائح اور خطابات سے مستفید ہوتے۔
اس نوعیت کے ایک پروگرام کا تذکرہ کرتے ہوئے مولانا عبد الغفار حسن لکھتے ہیں :
’’۱۹۲۷ء میں مولانا ابو الکلام آزاد رحمہ اللہ مرحوم مدرسہ رحمانیہ میں تشریف لائے اور مدرسے کے وسیع ہال (دار التذکیر) میں دینی نظامِ تعلیم پر انتہائی معلومات افزا خطاب فرمایا۔ ان کی ساری تقریر یاد نہیں ہے، چند باتیں جو دماغ میں محفوظ رہ گئیں ، وہ عرض کی جاتی ہیں ۔ مولانا محترم موصوف نے سب سے پہلے دینی تعلیم کی اہمیت کو بیان کیا، پھر درسِ نظامی کی تاریخ بیان کی اور اس کے محاسن و نقائص پر تبصرہ کیا۔ نقائص بیان کرتے ہوئے انھوں نے توجہ دلائی کہ اب موجودہ حالات میں منطق و فلسفے کی کتابیں غیر ضروری ہیں ، ان کا پڑھنا ضیاعِ وقت ہے۔ ساتھ ہی انھوں نے عربی ادب کا جائزہ لیا اور مقاماتِ حریری پر سخت تنقید کی۔۔۔ مولانا موصوف کی تقریر تقریباً دو گھنٹے کی تھی اور افسوس کہ قلم بند نہ ہو سکی اور نہ اس زمانے میں ٹیپ رکارڈ کا رواج تھا۔ اسی طرح مولانا موصوف نے عربی کی دوسری کتاب ’’نفحۃ الیمن‘‘ پر تبصرہ کیا، اس کتاب میں اخلاقی تعلیم کا درس نہیں ملتا، بلکہ طالب علم کا رجحان پستیِ اخلاق کی طرف ہو جاتا ہے......‘‘[1]
مدرسے سے باہر کی دنیا میں دعوتی کام انجام دینے کے لیے بھی مہتمم مدرسہ
[1] مولانا عبد الغفار حسن، حیات و خدمات (ص: ۷۸۔ ۷۹)