کتاب: تاریخ وتعارف مدرسہ دار الحدیث رحمانیہ دہلی - صفحہ 16
عطاء اﷲ حنیف بھوجیانی بھی تشریف لے گئے تھے۔ ان دنوں استاذِ مکرم کے ساتھ مدرسہ رحمانیہ میں بھی جانا ہوا اور اس کے قریب ہی حضرت مولانا محمد جونا گڑھی دہلوی کی کوٹھی میں مولانا سید تقریظ احمد سہسوانی کی زیارت بھی ہوئی۔ مدرسہ رحمانیہ میں حضرت مولانا عبیداﷲ رحمانی مبارک پوری اور مولانا نذیر احمد رحمانی املوی کو سلام عرض کرنے کا موقع ملا۔ دوسری مرتبہ ۲۰؍ جون ۱۹۴۷ء کو مولانا معین الدین لکھوی، قاضی عبید اﷲ اور یہ فقیر مولانا ابو الکلام آزاد سے ملاقات کے لیے دہلی گئے۔ اس سے پہلے مولانا معین الدین لکھوی کی شادی حضرت مولانا محمد جونا گڑھی کی صاحب زادی سے ہو چکی تھی، ہمارا قیام انہی کے مکان پر رہا۔ اس وقت مولانا محمد عبدہ الفلاح فیروزپوری مدرسہ رحمانیہ میں فریضہ تدریس انجام دیتے تھے، ان سے ملاقات کے لیے ہم مدرسہ رحمانیہ گئے اور پھر ۲۲؍ جون کو مولانا آزاد کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ مولانا محمد عبدہ بھی ہمارے ساتھ تھے۔ مدرسہ رحمانیہ واقعتا ہر لحاظ سے تمام دینی مدارس سے یگانہ حیثیت رکھتا تھا اور اسے دیکھ کر دل میں مسرت کی لہر کروٹ لینے لگتی تھی۔ مدرسہ رحمانیہ، دہلی کے افقِ تدریس پر ایسی ساعتِ سعید میں نمودار ہوا کہ بہت جلد پورے ہندوستان میں اس کی شہرت پھیل گئی اور یہ محبانِ علم کا مرجع قرار پاگیا۔ اس مدرسے میں نہ انگریزی پڑھائی جاتی تھی نہ سائنس۔ موجودہ دور کے کسی جدید علم کا اس میں گزر نہ تھا، صرف انہی دینی علوم اور ان کے متعلقات کی تعلیم دی جاتی تھی، جسے مدارس کی اصطلاح میں درسِ نظامی کہا جاتا ہے، لیکن اس مدرسے کا عمومی نظام اور طریقِ تعلیم کچھ ایسا پرکشش تھا کہ مختلف اوقات میں اس کو دیکھنے کے لیے جدید و قدیم کے بہت سے مشہور اصحابِ علم اور ممتاز ترین سیاسی رہنما وہاں گئے اور سب نے واضح الفاظ میں اس کے تمام پہلوؤں کو لائقِ ستایش گردانا۔ ان حضرات