کتاب: تاریخ وتعارف مدرسہ دار الحدیث رحمانیہ دہلی - صفحہ 155
اکثر مولانا عبد اﷲ روپڑی اور ان کے برادر حافظ محمد حسین روپڑی پرچے مرتب کرکے عین امتحان کے موقع پر تشریف لاتے۔ اس ضمن میں مولانا عبد الرحمن مبارک پوری کا تذکرہ بھی آئے گا۔ امتحانی پرچے میں تین چار سوال ہوتے اور سب کے سب لازمی۔ اس کا نقصان یہ تھا کہ اگر چار میں سے تین سوالوں کا جواب نہ دے سکے تو فیل کر دیے جاتے۔ اگر طالب علم ایک پرچے میں فیل ہو، لیکن مجموعی طور پر پاس ہو تو اسے پاس کر دیا جاتا تھا۔‘‘[1] شارح ترمذی علامہ عبد الرحمن مبارک پوری رحمہ اللہ کا تذکرہ کرتے ہوئے مولانا عبد الغفار حسن لکھتے ہیں : ’’۔۔۔ ۱۹۳۰ء میں مولانا مرحوم (رحمانیہ) تشریف لائے تو ہمارا ششماہی امتحان ہونے والا تھا۔ مدرسے کے مہتمم صاحب نے ان سے گزارش کی کہ جامع ترمذی کے امتحان کے سوالات مرتب فرمائیں ۔ مولانا مرحوم نے اپنے ذوق کے مطابق محدثانہ انداز میں سوالات مرتب کیے۔ مجھے ایک سوال یاد ہے کہ ایک حدیث میں آتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’الإقعاء سنۃ نبیکم‘‘ دوسری حدیث میں ہے: ’’نھیٰ عن الإقعائ‘‘ دونوں روایتوں میں تطبیق کیسے ہوگی؟ عام طور پر ممتحن حضرات حدیث کے سوالات میں دوسرے علوم کے سوالات بھی شامل کر دیتے ہیں اور اس طرح پرچہ مشکل بن جاتا ہے، لیکن مولانا موصوف نے سوالات اسی علم کے دائرے تک محدود رکھے۔‘‘[2]
[1] مولانا عبد الغفار حسن، حیات و خدمات (ص: ۷۴) [2] ایضاً (ص: ۸۲۔ ۸۳)