کتاب: تاریخ وتعارف مدرسہ دار الحدیث رحمانیہ دہلی - صفحہ 154
متاثر تھے کہ کسی قیمت پر انھیں روپڑ سے نقل مکانی نہیں کرنے دیتے تھے۔ خود حافظ صاحب بھی ان لوگوں کے مخلصانہ جذبات کی قدر کرتے تھے اور نہیں چاہتے تھے کہ کسی شکل میں ان کی دل شکنی ہو۔ مدرسہ رحمانیہ میں وہ مستقل طور سے جانے پر تیار نہ ہوئے تو انتظامیہ نے ان سے مدرسے کے سالانہ ممتحن مقرر ہونے کی درخواست کی۔ یہ درخواست حافظ صاحب نے منظور فرمائی اور ۱۹۱۷ء[1] سے ۱۹۴۷ء تک تیس سال مدرسہ رحمانیہ کے طلبا کا سالانہ امتحان لیتے رہے، اس اثنا میں انھوں نے ہزاروں طلبا کو اپنے دست مبارک سے اسنادِ فراغت عطا فرمائیں ۔‘‘[2]
مولانا عبدالغفار حسن رحمانی مدرسے کے امتحان کا پورا نقشہ کھینچتے ہوئے فرماتے ہیں :
’’شیخ (مہتمم) صاحب اپنی نگرانی میں امتحان کا انتظام کرواتے۔ دورانِ امتحان طلبا کی نگرانی کے لیے حافظ عبد القادر روپڑی اور حافظ محمد اسماعیل روپڑی موجود رہتے۔ نگرانی بہت سخت ہوا کرتی تھی۔ کسی مدرس کو امتحان گاہ کے قریب پھٹکنے کی اجازت نہ تھی۔ مدرسین حضرات سہ ماہی اور شش ماہی امتحانات کے پرچے مرتب کیا کرتے تھے۔ کوئی مدرس اپنی کتب کا امتحان نہیں لے سکتا تھا، بلکہ مدرسین کا آپس میں تبادلہ کیا جاتا، مثلاً مولانا عبیداﷲ مبارک پوری کی زیر درس کتابوں کا امتحان مولانا عبد الرحمن بہاری لیتے اور ان کی مولانا عبید اللہ۔
’’نئے طلبا کے داخلے کا امتحان زبانی ہوتا تھا، جو مولانا عبد الرحمن بہاری کے سپرد تھا۔ سالانہ امتحان کے پرچے خارجی ممتحنین تیار کرتے تھے۔
[1] یہ سہو ہے۔ دار الحدیث رحمانیہ ۱۹۲۱ء = ۱۳۳۹ ھ میں جاری ہوا ۔
[2] بزم ارجمنداں (ص: ۲۷۰)