کتاب: تاریخ وتعارف مدرسہ دار الحدیث رحمانیہ دہلی - صفحہ 153
طرف سے دو دو روپے نقد انعام دیے گئے۔ فبارک اللّٰہ فیہ وأحسن إلیہ۔ (مدیر)۔‘‘ [1]
رسالہ ’’محدث‘‘ ہی کے اپریل ۱۹۴۷ء کے شمارے میں ’’ششماہی امتحان‘‘ کی سرخی کے تحت درج ذیل خبر ہے:
’’دار الحدیث رحمانیہ دہلی کا ششماہی امتحان بھی بحمد اﷲ خیر وخوبی کے ساتھ ختم ہوگیا، حسبِ دستور طلبا کو امتحان کی تیاری کے لیے ایک ہفتہ کا موقع دیا گیا اور پھر از یکم تا ۳؍ ربیع الثانی ۱۳۶۶ھ امتحان ہوتا رہا۔ امتحان کے بعد دو روز مدرسے میں تعطیل رہی، نتیجہ بحمد اﷲ اچھا ہے، جماعت میں اول آنے والے ہر طالب علم کو مہتمم صاحب کی طرف سے دو دو روپے نقد بطور انعام دیے گئے۔ (منیجر)۔‘‘ [2]
امتحان کی شفافیت اور معتبریت برقرار رکھنے کے لیے خوش قسمتی سے مدرسے کو حسبِ طلب مولانا حافظ عبداﷲ صاحب روپڑی کی شکل میں ایک باصلاحیت، اصول پسند اور سخت گیر ممتحن کی خدمات حاصل ہوگئی تھیں ۔
مولانا محمد اسحاق بھٹی مولانا حافظ عبد اﷲ روپڑی کے تذکرے میں لکھتے ہیں :
’’۱۹۱۷ء [3] میں دہلی میں مدرسہ رحمانیہ جاری ہوا، اس کے اربابِ اہتمام نے حافظ (عبداﷲ روپڑی) صاحب کو دہلی آنے اور مدرسے میں خدمتِ تدریس انجام دینے پر اصرار کیا، مگر حافظ صاحب وہاں جانے پر آمادہ نہیں ہوئے، اس لیے کہ روپڑ اور اس کے قرب و جوار کے لوگ ان سے اتنے
[1] رسالہ ’’محدث‘‘ دہلی (جنوری ۱۹۴۷ء، ص: ۱۱)
[2] رسالہ ’’محدث‘‘ دہلی (اپریل ۱۹۴۷ء جمادی الاولی ۱۳۶۶ھ، ص: ۲۳)
[3] یہ سہو ہے۔ دار الحدیث رحمانیہ ۱۹۲۱ء = ۱۳۳۹ ھ میں جاری ہوا ۔