کتاب: تاریخ وتعارف مدرسہ دار الحدیث رحمانیہ دہلی - صفحہ 15
اس کے بعد مدرسے کے اہتمام کی ذمے داری ان کے چھوٹے بھائی شیخ عطاء الرحمن کے سپرد ہوئی۔ انھوں نے ۱۷ سال یہ اہم خدمت سر انجام دی اور ۳۱؍مئی ۱۹۳۸ء (یکم ربیع الثانی ۱۳۵۷ھ) کو اس جہانِ فانی سے عالمِ جاودانی کو رخصت ہوگئے اور مدرسے کی زمامِ اہتمام ان کے منجھلے فرزند شیخ عبد الوہاب کے ہاتھ میں آئی۔ وہ جون ۱۹۳۸ء سے لے کر اگست ۱۹۴۷ء تک نو سال مدرسے کے اہتمام کا فریضہ ادا کرتے رہے۔ پھر ملک کی تقسیم کے بعد دہلی سے کراچی آگئے۔ یہاں اپنا کاروبار شروع کیا تو ’’مدرسہ رحمانیہ‘‘ کے نام سے مدرسہ بھی جاری کر لیا۔
دہلی کا مدرسہ رحمانیہ عمارت، تدریس، انتظامات اور باقاعدگی کے سلسلے میں منفرد نوعیت کا مدرسہ تھا، اس میں ملک کے مشہور اور جلیل القدر مدرسین طلبا کو تعلیم دیتے تھے۔ تعلیم کے ساتھ ساتھ طلبا کی اخلاقی تربیت کا خاص طور پر خیال رکھا جاتا تھا۔ عربی اور اردو میں ان کو تحریر و تقریر اور غیر مسلموں سے مناظرے اور مباحثے کی مشق بھی کرائی جاتی تھی۔
اس مدرسے میں جن حضرات نے تعلیم پائی، ان میں مولانا عبیداﷲ رحمانی مبارک پوری، مولانا نذیر احمد رحمانی، مولانا عبد الرؤف جھنڈا نگری رحمانی، مولانا عبدالغفار حسن رحمانی، مولانا عبدالرحیم رحمانی، مولانا عبدالحکیم مجاز اعظمی اور برصغیر کے دیگر بے شمار اصحابِ علم شامل ہیں ۔ تعلیم سے فراغت کے بعد ان حضرات نے تدریسی اور تصنیفی اعتبار سے بے حساب خدمات سر انجام دیں ۔
تقسیم ملک سے قبل مجھے کئی مرتبہ دہلی جانے اور وہاں کئی کئی روز رہنے کا اتفاق ہوا۔ اس اثنا میں دو مرتبہ مدرسہ رحمانیہ میں بھی حاضری کا شرف حاصل ہوا۔ ایک مرتبہ اکتوبر ۱۹۴۵ء میں جمعیت علماے ہند کی طلب کردہ ایک میٹنگ میں گیا، جس میں حضرت مولانا سید محمد داود غزنوی، مولانا عبد المجید سوہدروی اور استاذِ مکرم مولانا