کتاب: تاریخ وتعارف مدرسہ دار الحدیث رحمانیہ دہلی - صفحہ 140
مولانا ۱۹۳۳ء میں فراغت حاصل کرچکے تھے، غالباً بعد میں یہ اجلاس ہفتہ واری ہونے لگا، کیونکہ ایک سوال کے جواب میں والد محترم مولانا محمد صاحب اعظمی حفظہ اللہ (جو ۴۷-۱۹۴۶ء میں وہاں متعلم تھے) نے ہفتہ وار اجلاس ہی کا ذکر کیا ہے۔
مولانا عبد الغفار حسن رحمانی فرماتے ہیں :
’’ہمیں عربی زبان کا بڑا شوق تھا۔ طلبا زیادہ ہونے کی وجہ سے ہماری باری بڑی مشکل سے آتی تھی۔ ہم چار ساتھیوں نے مل کر ’’جمعیۃ اللغۃ العربیۃ‘‘ کے نام سے ایک تنظیم بنائی۔ طلبا اور اساتذہ جمعے کی نماز کے بعد سیر کو نکل جاتے تو ہم مسجد میں اپنا اجلاس کرتے۔ ایک صدر بن جاتا اور دوسرا سیکرٹری، تیسرا مقرر ہوتا اور چوتھا سامع ہو جاتا، ان مشقوں نے بعد میں بہت فائدہ دیا۔‘‘[1]
ایک دوسری تحریر سے معلوم ہوتا ہے کہ مولانا عبد الحکیم قصوری، اس خصوصی جمعیت کے صدر، مولانا عبد الغفار سیکرٹری، بنگال کے لقمان اور انیس الرحمن اور عمرآباد کے عبد الواحد مدراسی مقرر اور سامع ہوتے تھے۔ ایک مرتبہ اسی پرائیویٹ مشق کے دوران میں عربی زبان میں ایک مناظرہ ہوا تو اچھا خاصا مجمع اکٹھا ہوگیا۔[2]
مولانا عبد الغفار حسن رحمانی فرماتے ہیں :
’’عربی کی یہ مشق مدینہ منورہ کی تدریس کے وقت خوب کام آئی (عربی بول چال کی مشق وممارست کا ایک اور انداز ذکر کرتے ہوئے مزید فرمایا) درسِ حدیث کے دوران میں ہر طالب علم کی خواہش ہوتی کہ وہ حدیث کی تلاوت کرے، چنانچہ باری مقرر کی گئی۔ ہفتے کے دن قراء ت میرے سپرد تھی اور باقی چھے ساتھی دوسرے دنوں میں ۔ ہم نے آپس میں عربی زبان میں گفتگو کرنے کا التزام رکھا تھا اور اگر کوئی اردو میں
[1] مولانا عبد الغفار حسن: حیات وخدمات، ص:۴۳۱-۴۳۲
[2] مولانا عبد الغفار حسن، حیات و خدمات (ص: ۶۸)