کتاب: تاریخ وتعارف مدرسہ دار الحدیث رحمانیہ دہلی - صفحہ 14
اسماعیل سلفی، مولانا عبدالعزیز میمنی، سید سلیمان ندوی، مولانا محمد سورتی، مولانا ابو الاعلیٰ مودودی، مولانا عبد المجید حریری، مولانا محمد داود غزنوی، مولانا عبدالقادر رائے پوری، علامہ خلیل عرب، مولانا عبد الحق اکوڑہ خٹک، مولانا شبیر احمد عثمانی، مولانا محمد حنیف ندوی، مولانا عبیداﷲ رحمانی مبارک پوری، مولانا سید ابو الحسن علی ندوی رحمہم اللہ ۔
یہ کوئی بہت قدیم زمانے کے لوگ نہیں ہیں ۔ بیسویں صدی عیسوی کے چند حضرات ہیں ، جن میں حنفی بھی شامل ہیں اور اہلِ حدیث بھی۔ خوانندگانِ محترم انھیں اچھی طرح جانتے ہیں اور انھیں خوب معلوم ہے کہ ان میں مفسرینِ قرآن بھی ہیں ، شارحینِ حدیث بھی ہیں ۔ عربی، فارسی اور اردو کے شعرا بھی ہیں ، تاریخی نوعیت کے ناول نویس بھی ہیں ، ادبا بھی ہیں ، سیرت نگار بھی ہیں ، مدرسین بھی ہیں ، مشہور ترین مناظرین بھی ہیں ، سیاست دان بھی ہیں ، مورخین بھی ہیں اور خطبا و مقررین بھی ہیں ۔
یہ سب حضرات انہی مدارس کے فارغ التحصیل اور اسی دینی ماحول کے پروردہ ہیں ۔ ان میں سے کسی نے نہ کالجوں میں تعلیم پائی، نہ یونیورسٹیوں میں گئے، لیکن اپنی بو قلموں خدمات کی بنا پر کالجوں اور یونیورسٹیوں کے تعلیم یافتہ لوگوں سے بہت آگے نکل گئے اور ان میں سے بعض حضرات کی تصانیف داخل نصاب ہوئیں اور ان کے انگریزی اور عربی زبانوں میں ترجمے کیے گئے۔ ان پر پی ۔ایچ ۔ ڈی کے مقالے لکھے گے۔
جس قسم کے مدارس میں ان حضرات نے تحصیل علم کی، ان میں ایک مدرسہ دار الحدیث رحمانیہ تھا، جو دہلی کے دو اصحابِ ثروت بھائیوں (شیخ عبد الرحمن اور شیخ عطاء الرحمن) نے جولائی ۱۹۲۱ء (شوال ۱۳۳۹ھ) میں دہلی میں جاری کیا تھا۔ اس کے مہتمم شیخ عبد الرحمن تھے، جو شیخ عطاء الرحمن کے بڑے بھائی تھے۔ لیکن مدرسے کے اجرا سے صرف دس مہینے بعد شیخ عبد الرحمن پر فالج کا حملہ ہوا اور وہ ۱۷؍ شعبان ۱۳۴۰ھ (۸؍ اپریل ۱۹۲۲ء) کو وفات پا گئے۔