کتاب: دلائل ہستی باری تعالیٰ - صفحہ 19
یَخْلُقُ مَا یَشَآئُ یَھَبُ لِمَنْ یَشَآئُ اِنَاثًا وَ یَھَبُ لِمَنْ یَّشَائُ الذُّکُوْرَ‘‘ (سورہ الشوریٰ آیت نمبر 49) اسی معنے میں کسی کا شعر کیا خوب ہے ؎ ہم نے چاہا بہت پر نہ چاہا اس نے چاہا اس کا ہوا چاہا ہمارا نہ ہوا ارسطو کا استدلال ایک استدلالِ خدا کے اثبات پر ارسطو کا نقل کرتا ہوں اس نے لکھا ہے کہ عالم کے تمام اجزا میں کسی نہ کسی قسم کی حرکت پائی جاتی ہے۔ کیونکہ تمام اجسام یا بڑھتے رہتے ہیں یا گھٹتے رہتے ہیں۔ یعنی پرانے اجزاء فنا ہوتے جاتے ہیں اور ان کی بجائے نئے آتے رہتے ہیں۔ اجزاء کا یہ بدلتے رہنا ہی ایک قسم کی حرکت ہے اسی لئے تمام عالم متحرک ہے۔ اور جو چیز متحرک ہے ضرور ہے کہ اسکے لئے کوئی محرک ہو۔ اب دو صورتیں ہیں یا یہ سلسلہ کسی حد تک ختم ہو گا یعنی اخیر میں ایک ایسی چیز ثابت ہو گی جو بالذات یا بواسطہ تمام اشیاء کی محرک ہے اور خو د متحرک نہیں۔ یہی خدا ہے یایہ سلسلہ کہیں ختم نہ ہوگا اس صورت میں غیر متناہی کا وجود لازم آئے گا۔ اور یہ محال ہے۔ وجودِ باری پر متکلمین کا استدلال متکلمین اس طرح استدلال کرتے ہیں کہ عالم دو صورت سے خالی نہیں ہو گا یا جوہر ہو گا یا عرض ہو گا۔ اور جوہر اور عرض دونوں حادث ہیں عرض کا حادث ہونا تو ظاہر ہے (کیونکہ وہ پیدا ہوتا ہے اور فنا ہو جاتا ہے جیسے بو ، رنگ، خوشی وغیرہ)جوہر اس لئے کہ کوئی جوہر عرض سے خالی نہیں۔ اور یہ معلوم ہے