کتاب: دلائل ہستی باری تعالیٰ - صفحہ 13
تلافی ابداً ممکن نہیں ہے وقت آگیا ہے کہ انسانیت کی محفل سے مذہب کو کان پکڑ کے باہر نکال دیا جائے اور اس کا نام و نشان صفحہء ہستی سے مٹا دیا جائے ‘‘۔ مسٹر اوپی کی تقریر کا اقتباس یہ ہے ’’مذہب دماغِ انسانی کا محض ایک فریب ہے خدا کا کہیں کوئی وجود نہیں انسا ن کے وہم نے خدا کی ذات کو خود تصنیف کر رکھا ہے مسیح (علیہ السلام) نے اگر جرمنی میں جہاں ہٹلر کا دور دورہ ہے از سر نو جنم لے لیا ہے تو یقینادوبارہ سولی پر لٹکا دیا جائے ہندوستان کی موجودہ مشکلات کی ساری ذمہ داری خدائی تصور اور مذہب پر عائد ہوتی ہے جو سائنس اور عقل کی ایک غضب آلود نگاہ کی تاب بھی نہیں لاسکتا ‘‘ص2 ناظرین کرام !دیکھئے اللہ کی ہستی کے انکار اور غصہ کے اظہار کی بنیاد کس قدر پُھسپُھس ہے۔ مولانا ابوالکلام آزادؔ نے’’تذکرہ‘‘میں لکھا کہ عہدِ عباسیہ کی حدود موجودہ جغرافیہء ارضی کے لحاظ سے ایک طرف ساحلِ بمبئی تک اور دوسری طرف صحرائے افریقہ تک پہنچ جاتی ہیں۔ (ص77) اب میں پوچھتا ہوں کہ کیا بنو عباسیہ کی یہ وسعتِ مملکت ان کو جب ہی حاصل ہوئی تھی جبکہ انہوں نے مذہب کو انسانیت کی محفل سے کان پکڑ کر نکال دیا تھا۔ اوریہ اعلان کر دیا تھا کہ اللہ کوئی چیز نہیں ہے۔ تاریخ اسلام پر غور کیجئے جب تک لوگوں میں مذہبیت رہی ہستی خدا کا اعتراف رہا۔ ان کے اعمال اچھے رہے۔ انکو ہر طرح سے ترقی وغیرہ ملی۔ مذہب کو مانعِ ترقی سمجھنا غلط ہے۔ اسلام ہی نے تو تمدن و ترقی کی بنا ہی ڈالی ہے۔ اسلام نے صحراء نشینانِ عرب کو قعرِ ذلت و پستی سے نکال کر عروج و رفعت کے ایسے مرتبہ پر پہنچایا کہ قیصر وکسریٰ کی رفعتیں اور ان کی ساری شوکتیں اسلام کے آگے نہ صرف ہیچ ہو گئیں بلکہ اسلامی رفعت و ترقی کی غلام ہو گئیں۔ یہ ہے مذہب جسکی بابت مولانا حالیؔ کا شعر موزوں ہے ؎