کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 96
وہاں علما نے ان سے سید نذیر حسین دہلوی سے رشتۂ تلمذ استوار کرنے کی آرزو کا شدت سے اظہار کیا۔ علامہ عظیم آبادی نے مکہ مکرمہ سے ایک مکتوبِ گرامی اپنے عالی قدر استاذ گرامی کو بھیجا جس میں مسئلہ اجازئہ عامہ پر سیر حاصل بحث کی اور گذارش کی کہ سیّد صاحب علمائے حجاز و یمن و بلادِ عرب کو اپنا اجازہ مرحمت فرمائیں ۔ جواب میں شیخ الکل سید نذیر حسین نے اپنا زمانہ پانے والے علما کو اجازت مرحمت فرمائی۔ اس طرح اس کتاب میں اجازئہ عامہ کی بحث کے ساتھ ساتھ خود سیّد صاحب کی اسانید پر بھی بحث کی گئی۔ اس کا شمار سیّد صاحب کے ثبت کی حیثیت سے بھی کیا جاتا ہے۔ اس کا تفصیلی ذکر شیخ عبد الحی الفاسی المراکشی نے اپنی مشہور کتاب ’’فہرس الفہارس و الاثبات‘‘[1] اور ڈاکٹر یوسف عبدالرحمن المرعشلی نے ’’معجم المعاجم و المشیخات والفہارس و البرامج و الأثبات‘‘[2] میں کیا ہے۔ ’’المکتوب اللطیف‘‘ چھے رسالوں کے ایک مجموعے کے ساتھ مطبع انصاری دہلی سے ۱۳۱۲ھ میں طبع ہوا۔ شیخ عبد العزیز بن فیصل الراجحی نے اس کا اختصار کیا ہے، تاہم وہ ہماری نظر سے نہیں گزرا۔ امام ابو الطیب شمس الحق کی دیگر تصانیف: ’’عقود الجمان في جواز تعلیم الکتابۃ للنسوان‘‘: فارسی زبان میں عورتوں کو لکھنا پڑھنا سکھانے کے جواز میں یہ محدثانہ طرزِ تالیف پر مختصر، لیکن وقیع رسالہ ہے۔ اس کا عربی ترجمہ دمشق سے شیخ محمد بن عبد العزیز المانع کی تعلیق کے ساتھ ۱۹۶۱ء میں طبع ہوا، لیکن ترجمے میں متعدد اغلاط ہیں ۔ اس کا ایک دوسرا عربی ترجمہ ڈاکٹر وصی اللہ محمد عباس بستوی نے کیا جو انھیں کی تعلیق کے ساتھ علمی اکیڈمی کراچی سے ۱۹۸۸ء میں طبع ہوا۔ اس کا اردو ترجمہ بھی ’’مجموعہ مقالات و فتاویٰ عظیم آبادی‘‘ (شائع کردہ دار ابی الطیب، گوجرانوالہ) میں طبع ہو چکا ہے۔ ’’الأقوال الصحیحۃ في أحکام النسیکۃ‘‘: یہ بھی فارسی میں ہے۔ مسائلِ عقیقہ پر یہ کتاب محدث عظیم آبادی کی غالباً پہلی تصنیف ہے جسے انھوں نے میاں صاحب کے پاس اپنے پہلے قیام کے دوران میں ۱۲۹۴ھ میں لکھا تھا۔ ۱۲۹۷ھ میں مطبع فاروقی دہلی سے اس کی طباعت
[1] فہرس الفہارس و الاثبات (۲/ ۲۸۔۲۹) [2] معجم المعاجم و المشیخات والفھارس و البرامج و الاثبات (۲/ ۳۱۴۔۳۱۵)