کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 91
ان اقتباسات سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ حضرت میاں صاحب کی نگاہِ شوق کس درجہ اس شرح پر مرتکز تھی۔ اس کی تین جلدیں حضرت میاں صاحب کی زندگی ہی میں طبع ہو کر منصہ شہود پر آگئی تھیں ، جبکہ چوتھی اور آخری جلد میاں صاحب کی وفات کے تقریباً اڑھائی برس بعد طبع ہوئی۔ ’’عون المعبود‘‘ پہلی مرتبہ مطبع انصاری دہلی سے بڑے سائز میں طبع ہوئی۔ اس کی پہلی جلد ۱۳۱۸ھ میں طبع ہوئی، تعدادِ صفحات: ۵۶۹۔ دوسری جلد پر سنۂ طباعت درج نہیں ، قیاساً ۱۳۱۸ھ، تعدادِ صفحات: ۳۵۰۔ تیسری جلد ۱۳۱۹ھ میں طبع ہوئی، تعدادِ صفحات: ۴۳۳۔ چوتھی جلد ۱۳۲۳ھ میں طبع ہوئی، تعدادِ صفحات: ۵۴۴۔ عون المعبود کے آخر میں کبار علمائے ذی اکرام کی تقاریظ ہیں جنھوں نے اس شرح کو بڑی قیمتی اور اہمیت کا حامل بتایا ہے اور شارح کی علمی فضیلت کا اعتراف اور ان کے حق میں دعائیں کی ہیں ۔ مولانا تلطف حسین نے بحیثیتِ ناشر خاتمہ طبع کے ذیل میں کتاب کا پسِ منظر اور اس کے محاسن بیان کیے ہیں ۔ مقرظینِ عون المعبود میں حسبِ ذیل علما شامل ہیں : شیخ حسین بن محسن یمانی انصاری، علامہ محمد بشیر سہسوانی، قاضی یوسف حسین خان پوری، شاہ محمد نعیم عطا کریمی، مولانا نذیر فریدی اعظمی، مولانا حکیم عبد الحفیظ دہلوی، میر شاہجہاں دہلوی، مولانا حافظ عبد المنان وزیر آبادی رحمہم اللہ ۔ ’’عون المعبود‘‘ پر علامہ رشید رضا مصری کا تبصرہ: مصر کے نامور فاضل علامہ سیّد رشید رضا مصری نے اپنے جریدے ’’المنار‘‘ میں ’’عون المعبود‘‘ پر تبصرہ لکھا تھا، جس میں ’’سنن ابی داود‘‘ کی اہمیت اور شروحاتِ حدیث میں ’’عون المعبود‘‘ کی انفرادیت اور علمی مرتبے پر اظہارِ خیال کیا ہے۔ یہ تبصرہ بطور یادگار اس لائق ہے کہ اسے یہاں من و عن نقل کیا جائے۔ ملاحظہ کریں : عون المعبود بشرح سنن أبي داود کتاب السنن للإمام الحافظ أبي داود من أجل کتب الحدیث وأجمعہا وأضبطہا، حتی قال بعض العلماء: إن فیہ القدر الکافي للمجتہد في الفقہ۔ ولم یطبع طبعا متقنا مضبوطا لا في مصر ولا في الہند، ولا طبع لہ شرح فیما نعلم قبل شرح عون المعبود وہذا الشرح للشیخ أبي