کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 89
’’عون المعبود‘‘ اپنے سلیس و سادہ طرزِ بیان کی وجہ سے تمام بلادِ اسلامیہ کے ہر مکتبۂ فکر کے علماء میں معروف و متداول ہے۔ اس شرح کی تصنیف کا پسِ منظر بیان کرتے ہوئے علامہ عظیم آبادی کے رفیقِ خاص اور حضرت میاں صاحب کے خادمِ خاص مولانا تلطف حسین عظیم آبادی لکھتے ہیں :
’’میں نے میاں صاحب سے بارہا ایک جماعت کی موجودگی میں ، جس میں فاضل شارح ابو الطیب عظیم آبادی بھی موجود تھے، کہتے ہوئے سنا کہ حضرت محدث الہند شاہ عبد العزیز دہلوی کے پاس ابو داود کا ایک صحیح نسخہ تھا، جس کا متعدد صحیح نسخوں سے مقابلہ و معارضہ کر کے پوری کتاب کو محشی کیا، جس میں خصوصاً تمام مقامات صعبہ کا حل تھا۔ حضرت شاہ صاحب کا علماء پر یہ اتنا بڑا احسان تھا جس سے کبھی وہ سبکدوش نہیں ہو سکتے۔ قسمت کی خوبی کہ حضرت شاہ صاحب کا یہ نسخہ حضرت میاں صاحب کے ہاتھ لگا، لیکن ۵۷ء کی جنگِ آزادی میں یہ قیمتی نسخہ ضائع ہو گیا۔ میاں صاحب کے رنج و ملال، غم و حزن کا اظہار اس وقت ہوتا جب اس کا تذکرہ آجاتا، غایتِ تاسف سے فرماتے کہ کاش! کہیں اس نسخہ کا سراغ مل جاتا تو باوجودِ قلتِ بضاعت و کمی سرمایہ کے ہر قیمت پر اس کو خریدتا۔ ہمارے شیخ کا یہ کلام جب مکرم مخدوم ابو الطیب نے سنا تو اللہ نے ان کے قلب میں سنن ابی داود کی خدمت کا جذبہ القا کر دیا۔ اس کی خدمت کے لیے وہ تیار ہوئے اور اپنی جان و مال سے اس میں کوشش کی۔ ان کی کوشش کامیاب ہوئی اور وہ اپنے مقصد کی تکمیل کو پہنچے۔‘‘[1]
حضرت میاں صاحب کی حیات ہی میں تین جلدیں طبع ہوکر منصہ شہود پر آئیں ۔ میاں صاحب اس شرح کو دیکھ کر بہت خوش ہوتے اور شارح کے لیے دعائے خیر کرتے، بقول مولانا تلطف حسین، میاں صاحب فرماتے ہیں :
’’زال عني الغموم التي حصلت لي بإضاعۃ النسخۃ العزیزیۃ‘‘[2]
’’نسخہ عزیزیہ کے ضیاع سے مجھے جو غم لاحق تھا، وہ سب اس شرح کے حصول سے دور ہو گیا۔‘‘
[1] عون المعبود (۴/ ۵۵۲)
[2] عون المعبود (۴/۵۵۳)