کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 87
شروح ہیں ۔ جن میں ان کے مجتہدانہ اندازِ فکر کی علمی تحقیقات اور اس پر مستزاد ان کے سلیس و فصیح طرزِ بیان نے ممالکِ عرب و مغارب کے اربابِ علم کو بھی متاثر کیا، حتی کہ علمِ حدیث کے ہر طالبِ علم کے لیے اس سے استفادہ ناگزیر ہو گیا۔
1۔ ’’غایۃ المقصود شرح سنن أبي داود‘‘:
محدثِ جلیل علامہ ابو الطیب شمس الحق کی عظیم الشان تصنیف ’’غایۃ المقصود في حل سنن أبي داود‘‘ ہے، جس کا تعارف دمشق کے نامور فاضل علامہ محمد منیر دمشقی نے بایں الفاظ کرایا ہے:
’’و شرح أبو الطیب المسمی ’’غایۃ المقصود في حل سنن أبي داود‘‘ و ھو الشیخ الجلیل أبو الطیب محمد الشھیر بشمس الحق العظیم آبادي، وھو شرح واسع جدا ینقل عمن تقدمہ من أصحاب الشروح و الحواشي، و غالبا یعزو ما نقلہ إلی صاحبہ، و ھو یتعرض أوّلا إلی بیان تراجم الرواۃ وحال درجاتھم، ثم یعقب ذلک بالکلام علی الکلمات اللغویۃ، ثم علی فقہ الحدیث، و قلدہ في ذلک الشیخ السبکي (محمود خطاب)، والمؤلف صاحب عقیدۃ صحیحۃ، ومذھبہ مذہب أہل الحدیث، والشرح لا بأس بہ، کل من جاء بعدہ من شیوخ الھند وغیرھم استمدوا شرحہ ھذا‘‘[1]
یہ عظیم شرح ۳۲ ضخیم جلدوں پر محیط تھی، مگر افسوس کہ اس کی صرف پہلی جلد شارح کی زندگی میں مطبع انصاری دہلی سے ۱۳۰۵ھ میں طبع ہوئی۔ جو کتاب الطہارۃ کے ۷۵ ابواب کی شرح پر مشتمل تھی۔ بعد ازاں ۱۴۱۴ھ میں شیخ عبد الحمید نشاطی کی مساعیِ جمیلہ سے یہ شرح تین جلدوں میں شائع ہوئی، جس میں کتاب الطہارۃ کی شرح مکمل ہوگئی ہے اور کتاب الصلاۃ کے بھی دو ابواب کی شرح موجود ہے۔ ’’غایۃ المقصود‘‘کے آغاز میں مصنف نے ایک مبسوط مقدمہ لکھا ہے جو بقول علامہ عطاء اللہ حنیف بھوجیانی:
[1] نموذج من الأعمال الخیریۃ (ص: ۷۲۶)