کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 86
ملکِ عرب و مغارب تک اس کا شہرہ ہے۔ طلبہ کے خطوط کتابوں کی طلب میں درجنوں آتے رہتے، آپ ان کو نمبر وار درج رجسٹر فرماتے اور نمبر وار ترتیب سے ان کو کتابیں بھیجتے۔ بسا اوقات کثرتِ درخواست سے چھے چھے برس کے بعد کتابوں کے بھیجنے کی نوبت آتی، جس قدر جماعت اہلِ حدیث کی تمام ہندوستان میں ہے، کوئی جگہ شاید ایسی ہو جہاں حضرت میاں صاحب مرحوم کے بعد ان کا فیض نہ پہنچا ہو اور وہاں کے مدرسہ میں ، بشرطیکہ قابلِ ذکر ہو، مولانا کے کتابوں کا عطیہ نہ پہونچا ہو۔ اس کے علاوہ دیوبند، سہارن پور، میرٹھ وغیرہ کے مدارس بھی آپ کے فیض کے ممنون ہیں ۔ اگر مدرسہ احمدیہ کے رکن اور کانفرنس اہلِ حدیث کے امین، مدرسہ اصلاح المسلمین پٹنہ کے سیکرٹری تھے تو مطبع دائرۃ المعارف حیدر آباد کے رکنِ اعظم بھی تھے۔ یہ تہذیب التہذیب، تذکرۃ الحفاظ وغیرہ کتب نادر الوجود آپ ہی کے مشورے سے طبع ہوئیں ۔ مصر کے مطابع آپ سے طبع کتب کی رائے لیتے۔‘‘[1]
آخری ایام میں علامہ سمعانی کی ’’الانساب‘‘، حافظ ابن حجر کی ’’لسان المیزان‘‘ اور امام ابن عبد البر کی ’’التمہید‘‘کی طباعت کا ارادہ فرمایا تھا، مگر شمعِ حیات نے وفا نہ کی اور اس حسرت کو لیے جان جان آفریں کے سپرد کر دی۔
اپنے معاصر علماء میں مچھلی شہرکے قاضی محمد جعفری کی ۲۵ کتابوں کی اشاعت کے بڑے آرزو مند تھے، اس سلسلے میں ان کے صاحبزادوں سے بغرضِ طباعت مسودوں کے حصول کی پیہم کوشش کی، امید بھی ہو چلی تھی کہ خود جامِ حیات ہی چھلک پڑا، ورنہ آپ کی توجہ سے یہ علمی خزینہ دست بردِ زمانہ کی نذر ہونے سے بچ جاتا۔[2]
اپنے معاصر علما سے جو کتابیں لکھوا کر شائع کروائیں ، ان کا ذکر گذشتہ اوراق میں ہوچکا ہے۔ ذیل میں ان کی تصنیف کردہ خزائنِ علمیہ کا تذکرہ ملاحظہ کریں ۔
تصنیفات:
امام ابو الطیب شمس الحق کا ایک ناقابلِ فراموش کارنامہ ان کی تالیف کردہ کتبِ حدیث کی
[1] ہفت روزہ ’’اہلِ حدیث‘‘ (امرتسر) ۲۸ اپریل ۱۹۱۱ء
[2] ہفت روزہ ’’اہلِ حدیث‘‘ (امرتسر) ۲۸ فروری ۱۹۲۰ء