کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 82
خاص بات رکھتا ہے کہ اس میں ہر فن کی کارآمد اور مفید کتابیں جمع ہیں ۔علامہ مرحوم کی ساری عمر کی محنتوں اور جانفشانیوں کا نتیجہ ہے کہ آپ کے خداداد شوق کا ماحصل خداوندِ کریم اس کی حفاظت کرے کہ اس میں قلمی کتابوں کے بڑے بڑے جواہر نادر الوجود ہیں جن کے دیکھنے کے لیے یورپ کے شائقین کی آنکھیں ترستی ہیں ۔ کتبِ قلمیہ کے علاوہ بیروت، مصر، جرمن، فرانس، انگلینڈ، لندن، ہندوستان وغیرہ کی مطبوعہ کتابیں پہلے طلب کرتے۔ اکثر نسخے مکرر ہوجاتے، ان کو فی الفور اہلِ حاجت کے حوالہ کردیتے۔ ایک بار قسطلانی شرح صحیح بخاری کے کئی نسخے ہو گئے تو ایک کتب خانہ مدرسہ اصلاح المسلمین کے اور دوسرا مولوی محمد صاحب پٹنوی مالک مطبع احمدی کے حوالے کردیا۔‘‘[1] ڈیانواں میں ان علمی خزینوں کے عظیم اجتماع کا مبارک نتیجہ یہ نکلا کہ اکابر علمائے کرام ڈیانواں کو اپنے قدومِ میمنت لزوم سے مشرف کرتے اور محدث ابو الطیب ان عالی قدر مہمانانِ گرامی کی میزبانی کے فرائض انجام دیتے۔ ایک بار استاذِ پنجاب حافظ عبد المنان محدث وزیرآبادی کو بھی ڈیانواں بلایا۔ حافظ صاحب موصوف کے نواسے مولانا عبدالمجید خادم سوہدروی، حضرت محدث ڈیانوی کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں : ’’حضرت حافظ صاحب وزیر آبادی رحمۃ اللہ علیہ سے مرحوم کو خاص اُنس تھا۔ ایک بار حافظ صاحب کو اپنے پاس ڈیانواں ضلع عظیم آباد پٹنہ میں بلایا اور بہت خاطر و مدارات سے پیش آئے۔ اپنا عظیم الشان کتب خانہ (جو نایاب و نادر کتب کے لحاظ سے سارے علاقہ میں اول نمبر تھا) دکھایا اور کئی ایک کتابیں جو آپ نے زرِ کثیر صرف کر کے بیروت سے مہیا کی تھیں دکھائیں ، سنائیں اور تبادلہ خیالات کر کے فوائدِ علمیہ لامتناہیہ سے محظوظ ہوئے۔ مرحوم کو حدیث اور علمائے اہلِ حدیث سے بے حد محبت تھی۔ علمی دنیا کو آپ کی ذات ستودہ صفات سے بہت فائدہ ہوا۔‘‘[2]
[1] ہفت روزہ ’’اہلِ حدیث‘‘ (امرتسر) ۲۸ اپریل ۱۹۱۱ء [2] استادِ پنجاب (ص: ۹۶)