کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 81
فنِ حدیث کا کتب خانہ اتنا تھا کہ ندوۃ العلماء نے جو بنارس میں پرانی کتابوں کی نمائش کی تھی تو مولانا کے کتب خانہ سے بہت سی کتابیں آئی تھیں ۔ مطبع دائرۃ المعارف حیدر آباد دکن بھی مرحوم کا ممنون و مرہونِ احسان تھا۔ فنِ حدیث کے جملہ شعبوں سے آپ کو شوق ہی نہ تھا بلکہ شغف تھا۔ آپ نے بہت سی کتبِ حدیث کی شرحیں عربی میں لکھیں ۔ غرض اچھے خاصے جامع محدث کی حیثیت سے تھے۔‘‘[1] مولانا شبلی نعمانی ’’دارالعلوم ندوۃ العلماء‘‘ لکھنؤ کی علمی نمایش منعقدہ بمقام بنارس میں کتب خانہ ڈیانواں کی کتابوں کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں : ’’فنِ حدیث کی نہایت نایاب کتابیں مولانا شمس الحق صاحب ڈیانوی نے عنایت کی تھیں ، جن میں سے متعدد کتابیں ایسی تھیں جو امام بخاری سے پیشتر زمانہ کی تصنیف تھیں ۔‘‘[2] مولانا ثناء اللہ امرتسری جو ’’ندوۃ العلماء‘‘ کی اس علمی نمایش میں شریک ہوئے تھے، اپنی شرکت اور علامہ عظیم آبادی کی کتابوں کا ذکر کرتے ہوئے فخریہ طور پر لکھتے ہیں : ’’جلسہ کھگول سے فارغ ہو کر سیدھا بنارس ندوۃ العلماء کے جلسہ میں پہونچا۔ ندوہ کا جلسہ بظاہر تو خیر و خوبی سے تمام ہوا۔ چندہ بھی ہزار سے زائد لکھوایا گیا۔ ندوہ کے طلباء نے بھی خوب نمونہ دکھلائے۔ علمی نمایش بھی کامیابی سے ہوئی جس میں پرانی پرانی کتابیں دکھا کر مولانا شبلی نے حفاظت اور حمایتِ علم کی ترغیب دی۔ صاحب کمشنر اور کلکٹر صاحب وغیرہ بھی اس جلسہ میں شریک تھے۔ مزید خوشی یہ ہے کہ نمایشی کتب میں اہلِ حدیث کے فخر جناب مولانا محمد شمس الحق صاحب عظیم آبادی کی بہت سی کتابیں تھیں ۔‘‘[3] مولانا عبد السلام مبارکپوری نے علامہ شمس الحق کے کتب خانے کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے: ’’یوں تو ہندوستان میں بہت سے کتب خانے ہیں ، لیکن علامہ ابو الطیب کا کتب خانہ
[1] ہفت روزہ ’’اہلِ حدیث‘‘ (امرتسر) ۳۱ مارچ ۱۹۱۱ء [2] مقالاتِ شبلی (۷/ ۱۰۴) [3] ہفت روزہ ’’اہلِ حدیث‘‘ (امرتسر) ۲۷ اپریل ۱۹۰۶ء