کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 80
آپ بتاریخ ۱۹ ربیع الاول ۱۳۲۹ھ یوم سہ شنبہ مطابق ۲۱ مارچ ۱۹۱۱ء بوقت ۶ بجے صبح بعارضۂ طاعون انتقال فرما گئے اور جس وقت کہ دنیا کا آفتاب طلوع ہوا تھا اسی وقت دین کا آفتاب (شمس الحق، یعنی حق کا آفتاب) غروب ہوا۔ إنا للّٰه و إنا إلیہ راجعون، اللھم اغفرلہ و ارحمہ۔ ؎ جی کے جی ہی میں رہے ارمان سارے چل بسے‘‘[1] مولانا عبد البر عظیم آبادی: مولوی حبیب الرحمان ساکن کٹونہ عظیم آباد اپنے برادرِ اکبر مولانا عبد البر عظیم آبادی کے حالات میں لکھتے ہیں : ’’مولانا شمس الحق محدثِ ڈیانواں (جو تحریصِ خدمتِ علمِ دین میں غایت مستعد تھے) کی نظر آپ پر لگی ہوئی تھی۔ محدث آپ کی وسعتِ نظر اور مبلغِ علم کا اندازہ آپ کی تصانیف سے کرنا چاہتے تھے، تاکہ ترویجِ علومِ دین کی جانب کامل اطمینان و تقویت حاصل ہو سکے، مگر اس آرزو کے پورے ہوتے ہی بادِ سموم نے یکے بعد دیگرے نخلِ آرزو کا خاتمہ کر دیا۔‘‘[2] کتبِ دینیہ کی جمع وا شاعت: کتابوں کی جمع و اشاعت کے ممدوح شائق ہی نہیں ، بلکہ حریص تھے، ان کی بدولت ارضِ ڈیانواں کا بخت بیدار ہو گیا، علمِ حدیث و رجال کے وہ علمی خزینے جنھیں دیکھنے کے لیے اہلِ علم کی نگاہیں ترستی اور دل تڑپتے تھے، ڈیانواں میں جمع ہو گئے اور علمِ حدیث و علمِ اسماء الرجال کے مخطوطات و مطبوعات کے لحاظ سے یہاں کا کتب خانہ ہندوستان بھر میں اول نمبر پر آگیا۔ علامہ ابو الوفاء ثناء اللہ امرتسری لکھتے ہیں : ’’باوجود ایک اچھے خاصے رئیس ہونے کے دینی خدمات میں شب و روز مشغول تھے۔
[1] الامر المبرم لابطال الکلام المحکم (ص: ۲۴۳) [2] ہفت روزہ ’’اہلِ حدیث‘‘ (امرتسر) ۱۰ نومبر ۱۹۲۲ء