کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 77
ہوئے مختلف کتب سے ہر نوع کی احادیث جمع فرما دیں ، تو محدث ڈیانوی کے حکم پر اولاً علامہ مبارکپوری نے بصورتِ اشتہار ’’إعلام أھل الزمن‘‘ لکھی اور پھر ’’أبکار المنن‘‘ کے نام سے اس کا مستقل جواب بھی حضرت ڈیانوی ہی کے ایما پر لکھنا شروع کیا۔چنانچہ علامہ عبد الرحمان مبارکپوری ’’إعلام أھل الزمن‘‘ میں لکھتے ہیں :
’’جب میں نے اس کتاب (آثار السنن) کو دیکھا، اسی وقت اس کے مفصل اور مبسوط جواب لکھنے کا مصمم ارادہ کر لیا تھا، لیکن فرصت کا منتظر تھا۔اس اثنا میں جناب مولانا ابو الطیب شمس الحق صاحب محدث عظیم آبادی کی خدمت میں مختلف دیار و امصار سے متعد د خطوط اس کتاب کے جواب کے بارے میں آئے اور جناب ممدوح نے اس خاکسار کو اس کے جواب لکھنے کی نسبت ارشاد فرمایا۔ اس لیے اس کا جواب شروع ہی کر دینا مناسب معلوم ہوا۔ اگرچہ بوجہ دیگر مشاغلِ علمیہ کے فرصت بہت کم ہی رہتی ہے۔ پس بذریعہ اس اشتہار کے عام اطلاع دی جاتی ہے کہ آثار السنن کا جواب نہایت تحقیق و بسط کے ساتھ متوکلاً علی اللہ شروع کر دیا گیا۔ اللہ تعالی جلد اختتام کو پہونچا کر شائع کرائے۔ آمین‘‘[1]
جب علامہ شوق نیموی نے دیہات میں جمعہ کے عدمِ جواز پر ’’جامع الآثار‘‘ لکھی تو حضرت محدث ڈیانوی کے حسبِ ارشاد، مولانا مبارکپوری نے اس کا جواب ’’نور الابصار‘‘ کے عنوان سے تحریر فرمایا۔ ’’نور الابصار‘‘ کے ساتھ مولانا مولا بخش بڑاکری بہاری کی ’’التجمیع في القریٰ بنقض ما في أوثق العریٰ‘‘ اور مولانا محمد سعید بنارسی کی ایک تحریر دربابِ تقلید مولانا رشید احمد گنگوہی کے جواب میں بھی مطبوع ہے۔ ’’نور الابصار‘‘ پر مولانا نیموی کے محاکمے کا جواب بھی علامہ مبارکپوری نے محدث ڈیانوی ہی کے دولت کدے پر لکھا۔ نیز محدث مبارکپوری نے ’’فتاویٰ نذیریہ‘‘ کی ترتیب و تدوین بھی محدث شمس الحق ڈیانوی کی خواہش پر انجام دی اور ’’غایۃ المقصود‘‘ کی تلخیص ’’عون المعبود‘‘ میں بھی محدث ڈیانوی نے ان کی استعداد کے مطابق کام لیا۔
[1] إعلام أھل الزمن (ص: ۱۳)