کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 76
کا شوق دلاتے، تحقیقاتِ علمیہ کا پتہ بتاتے، کتابوں کا پتہ دیتے، کتابیں مہیا کر دیتے، مشاہرہ دیتے، جو شخص دوچار روز بھی صحبت پاتا، تصنیف و تالیف کے شوق میں ڈوب جاتا۔‘‘[1]
علامہ عطا اللہ حنیف، محدث ڈیانوی کی خدماتِ گوناگوں کا ذکر کرتے ہوئے رقمطراز ہیں :
’’اس وقت کے متعدد نوجوان علما کو عملی تربیت دی، تاکہ تعلیق و حواشی کا یہ کام جاری رہ سکے۔ متعدد حدیثی رسالے اور فنِ حدیث و رجال کی اہم کتابیں اور رسالے طبع کروا کر شائع کرائے اور اس طرح عملی کا م کا یہ خلا اللہ تعالی نے مولانا شمس الحق کے ذریعے سے پورا فرمایا۔‘‘[2]
جن علما کی شاہراہِ علم و عمل میں محدث شمس الحق عظیم آبادی نے راہنمائی اور معاونت کی ان میں سے بعض کا تذکرہ درج ذیل ہے:
مولانا محمد سعید بنارسی:
مولانا محمد سعید محدث بنارسی کو تائیدِ مسلکِ محدثین کے لیے تیار کیا۔ ان سے مولانا رشید احمد گنگوہی کی ’’اوثق العریٰ‘‘ کے جواب میں ’’کسر العریٰ بإقامۃ الجمع في القریٰ‘‘ لکھوائی اور اپنے خرچ پر طبع کروائی۔ اس کے علاوہ مولانا بنارسی کے قائم کردہ ’’مدرسہ سعیدیہ‘‘کی بھی ہر ممکن مدد کی۔
مولانا ابو المکارم محمد علی مؤی:
مولانا ابو المکارم محمد علی مؤی سے مولانا ظہیر احسن شوق نیموی کے رسائل کی تردید میں مختلف رسائل لکھوائے، جن میں ’’المذہب المختار في الرد علی جامع الآثار‘‘ خاصی مشہور ہوئی۔
علامہ عبد الرحمان محدث مبارکپوری:
علامہ عبد الرحمان محدث مبارکپوری نے محدث ڈیانوی کے ایما پر سات برس ڈیانواں میں قیام کیا۔ علامہ ظہیر احسن شوق نیموی نے جب ’’آثار السنن‘‘ لکھی، جس میں مذہب حنفی کی رعایت کرتے
[1] ہفت روزہ ’’اہلِ حدیث‘‘ (امرتسر) ۲۸ اپریل ۱۹۱۱ء
[2] مولانا شمس الحق عظیم آبادی، حیات و خدمات (ص: ۱۰، ۱۱)