کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 75
23 شیخ صالح بن ابراہیم بن رشید المحیمید۔
علماء کی عملی تربیت:
علامہ عبد السلام مبارکپوری، محدث شمس الحق کی وفات پر اپنے دلِ محزون کے خدشات کا اظہار کرتے ہوئے ایک مقام پر لکھتے ہیں :
’’دنیا میں مرنا سب کو ہے، لیکن ایک موت وہ ہوتی ہے جو ایک جہاں کی موت خیال کی جاتی ہے۔ اللہ جل شانہ کی ذات غنی ہے، اس کو کسی کی بھی پروا نہیں ، نہ کسی کے جینے سے اس کا کچھ بنتا ہے اور نہ مرنے سے کچھ بگڑتا ہے وہ اپنے ملک میں جو چاہے کرے ۔لہ ما أعطی و لہ ما أخذ و کل شی عندہ بمقدار۔ وہ ایسے ایسے کتنے شمس الحق پیدا کر دے، وھو بکل شيء قدیر، لیکن ہماری بین نظر میں اس موت سے سردست ایک بڑے فیض کے بند ہونے کی صورت نظر آرہی ہے۔
’’علامہ ابو الطیب کی ذاتِ بابرکات سے علاوہ ہندوستان کے ملکِ عرب میں عسیر، بغداد، عمان، نجداور ملکِ مغرب میں فارس وغیرہ میں بھی فیض یاب ہو رہے تھے، ان ممالک سے طلبا آتے اور علومِ حدیث کا استفادہ کرتے، ان ممالکِ بعیدہ کے طلبا کی آپ سب سے زیادہ خاطر کرتے اور علاوہ خوراک و سبق کے ان کے لیے جیب خرچ اور لباس و کتابوں کا بھی سامان کرتے، ان کے ناز اٹھاتے، عرب کے لوگ بگڑے دل ہوتے ہیں ، مولانا کی علالت یا کسی اور ضروری کام کے اشتغال کی وجہ سے کبھی سبق ناغہ ہوتا تو یہ لوگ بگڑ کھڑے ہوتے۔ مولانا مرحوم ان کی دلجوئی کرتے مناتے۔‘‘[1]
مسلکِ سلف محدثین کی تجدید و احیا کے لیے امام ابو الطیب شمس الحق نے متعدد علما کو تیار کیا اور ان کی علمی و عملی تربیت کی۔ مالی اعانت مستقل فرماتے رہے، ان کی بعض تصانیف کو اپنے ذاتی خرچ
سے طبع کروا کر ﷲ تقسیم کیا۔ حضرت مولانا عبد السلام مبارک پوری لکھتے ہیں :
’’علمائے اہلِ حدیث یا فارغ التحصیل طلباء سے ملاقات کرتے اور ان کو تصنیف و تالیف
[1] ہفت روزہ ’’اہلِ حدیث ‘‘ (امرتسر) ۲۸ اپریل ۱۹۱۱ء