کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 73
مشرقی ہند میں شیخ الکل سید نذیر حسین دہلوی، شیخ حسین بن محسن یمانی، علامہ عبد الحی فرنگی محلی، قاضی محمد بن عبد العزیز جعفری مچھلی شہری، علامہ محمد بشیر سہسوانی، علامہ حافظ عبد اللہ غازی پوری وغیرہم کے تدریسی سلسلے جاری تھے، مگر یہ تمام مسانیدِ درس ہندوستان کے مرکزی شہروں میں آراستہ تھیں ، جہاں تک پہنچنا آسان اور سہل الحصول تھا۔ اس تناظر میں محدث ڈیانوی کے سلسلۂ تدریس کی افادیت مزید نمایاں ہوتی ہے۔ شیخ عبد الوہاب علی جان دہلوی ثم مکی لکھتے ہیں :
’’تتلمذ علیہ کثیرون من أھل الھند و العراق و النجد و عمان و عسیر و من البلاد الأخریٰ من البلاد العربي، لأنھم کانوا یرحلون إلیہ لطلب الحدیث و یقیمون في ضیافتہ إلی ما شاء اللّٰه لأنہ کان من الأغنیاء الموسرین‘‘[1]
’’اہلِ ہند، عراق، نجد، عمان، عسیر اور بلادِ عرب کے دیگر شہروں میں ان کے تلامذہ کثرت سے تھے۔ اس لیے کہ یہ تلامذہ ان کے پاس طلبِ حدیث کے لیے حاضر ہوتے اور جب تک اللہ چاہتا ان کے مہمان خانے میں اقامت اختیار کرتے اس لیے کہ وہ غنی صاحبِ ثروت تھے۔ ‘‘
تلامذہ:
محدث شمس الحق عظیم آبادی کے مشہور تلامذہ ذی اکرام کے اسمائے گرامی یہ ہیں :
1۔ ہندی تلامذہ کرام میں :
1 علامہ ابو عبد الرحمان شرف الحق محمد اشرف ڈیانوی (برادرِ اصغر)۔
2 شیخ الحدیث مولانا احمداللہ محدث پرتاپ گڑھی ثم دہلوی۔
3 علامہ محمد ابو القاسم سیف بنارسی مصنف’’حل مشکلات بخاری‘‘۔
4 مولانا ابو سعید شرف الدین محدث دہلوی۔
5 شیخ الحدیث مولانا فضل اللہ مدراسی۔
[1] استفدت من ھؤلاء المؤلفین (ص: ۲۷۷)