کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 72
دیا تھا، حتی کہ انہی جہود و مساعی کے ساتھ یومِ لقا آگیا اور آپ نے لبیک اللہم لبیک کہہ کر جان جان آفریں کے سپرد کر دی۔
خدمتِ علمِ حدیث کی جہاتِ اربعہ:
امام ابو الطیب شمس الحق عظیم آبادی نے بیک وقت چار ذرائع سے علم حدیث کی خدمت انجام دی، یعنی:
1 بذریعہ درس وتدریس کہ جس کے ذریعے طلابِ علومِ دین کی ایک کثیر تعداد نے آپ سے استفادۂ علمی کیا۔
2 معاصر علما کی عملی تربیت اور ان کی صلاحیتوں کے لیے اظہار کے مواقع پیدا کیے، تاکہ مسلکِ سلفِ محدثین کے احیا کا کام جاری رہے۔
3 نادر و نایاب کتابوں کی جمع و اشاعت، تاکہ جن کتابوں کا حصول مرحلۂ دشوار تھا، وہ بہ آسانی میسر آ سکیں ۔
4 بذریعہ تصنیف و تالیف، جو اخلاف کے لیے عظیم علمی خزینہ ثابت ہو سکے۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ محدث شمس الحق ڈیانوی کی خدماتِ حدیث کا دائرۂ کار (جو خاصا وسیع ہے) کس قدر متحرک و فعال اور کامیاب و کامران رہا۔
خدمتِ تدریس:
محدث ڈیانوی نے تکمیلِ علومِ دین سے فراغت کے بعد ڈیانواں میں اپنے دولت کدہ ہی پر قال اللہ و قال الرسول کی صدائیں بلند کیں ۔ آپ کی خدمتِ تدریس کم و بیش تیس برس پر محیط ہے۔ اس عرصے میں آپ کے سلسلۂ تدریس کو زبردست شہرت ملی۔ علمائے حجاز تک آپ کے دبستانِ علم و فضل کے خوشہ چیں ہوئے۔ یہاں اس حقیقت کو فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ علامہ عظیم آبادی کی مسندِ تدریس مرکزی شہری مقام پر آراستہ نہیں تھی۔ پٹنہ (موجودہ ضلع نالندہ) شہر کے اطراف میں واقع ایک دیہات میں یہ سلسلۂ تدریس شروع ہوا۔ یہ اللہ تعالی کی رحمتِ بے پایاں کی انتہا تھی اور علامہ کے علم و اخلاص کی دلیل کہ ان کے سلسلۂ تدریس نے غیر معمولی شہرت حاصل کی۔ اس عہد میں شمال