کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 71
تاہم یہ ایک حسرت ناک امر ہے کہ ان فتاویٰ اور مکاتیب کی طباعت خود علامہ عظیم آبادی کی زندگی میں نہ ہو سکی، لیکن اس کی جمع و ترتیب ان کے حسنات میں سے ایک ہے۔ خود اپنی کتابوں میں جس طرح محدث عظیم آبادی نے سید صاحب کے اقوال و ارشادات کو نقل کیا ہے، اس کی بھی تلامذہ کے اس وسیع حلقے میں دوسری مثال نہیں ملتی۔ غایۃ المقصود، عون المعبود، التعلیق المغنی، اعلام اہل العصر وغیرہا اس کی نمایاں مثال ہیں ۔ سید نذیر حسین دہلوی کی اسانیدِ حدیث پر محدث عظیم آبادی نے ’’المکتوب اللطیف‘‘ لکھی، جسے سید صاحب کے ثبت کی حیثیت حاصل ہے۔ علامہ عظیم آبادی ہی کے سوال کے جواب میں حضرت میاں صاحب نے اپنے معاصر طلابِ علم کو اپنی سند سے روایت کرنے کی عام اجازت (اجازئہ عامہ) مرحمت فرمائی۔ مولانا عبد الحمید رحمانی، علامہ شمس الحق عظیم آبادی کے تذکرے میں لکھتے ہیں : ’’شیخ الاسلام میاں نذیر حسین صاحب محدث دہلوی کی ذاتِ با برکات سے آپ کو انتہائی عقیدت تھی، جس کا اظہار آپ نے مقدمہ غایۃ المقصود، مقدمہ عون المعبود اور اپنی تمام تصنیفات اور علمی مباحث میں کیا ہے۔ مجدد دہلوی بھی آپ پر بڑی شفقت و عنایت فرماتے تھے اور آپ کی تصنیفات کی بڑی قدر کرتے اور آپ کی حوصلہ افزائی کرتے تھے۔ ’’مکاتیبِ نذیریہ‘‘ میں متعدد خطوط میاں صاحب کی جانب سے آپ کے نام شائع ہیں ، جو عظیم استاذ کے اپنے عظیم شاگرد کے ساتھ محبت و شفقت کی دلیل ہیں ۔ میاں صاحب کے مدرسے کی آپ بہت زیادہ مالی امداد فرماتے تھے۔ آخری دور میں تو اس کے طلبا کا خرچ عموماً آپ ہی کی امداد سے چلتا تھا۔‘‘[1] ہمہ جہت دینی خدمات: محدث ڈیانوی ایک جلیل القدر محدث تھے۔ ان کی زندگی کا ایک روشن پہلو یہ ہے کہ وہ سنت کے عامل اور اتباعِ سنت کے داعی تھے۔ انھوں نے اپنی پوری زندگی خدمتِ حدیث و سنت کی نذر کر دی۔ اپنے اوقاتِ خیر کے کثیر لمحات، مال و دولت کا کثیر حصہ اور اپنی ہمتوں و حوصلوں کو اسی راہ میں وقف کر
[1] مجموعہ مقالات مولانا عبد الحمید رحمانی (ص: ۳۶)