کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 709
معروف قصبہ ’’مدھو پور‘‘ تھا۔ مدھو پور میں جھاڑ کھنڈ کی دوسری جگہوں کی بہ نسبت ہر طرح کی سہولیات موجود تھیں ۔ اس لیے یہاں جماعتی کاز، دعوت و تبلیغ اور افتا و مناظرہ کے لیے شیخ الکل فی الکل میاں نذیر حسین محدث دہلوی کے کئی تلامذہ آئے۔ ..... میاں صاحب کے دو تلامذہ مولانا علی حسن گڈاوی اور مولانا عبد العزیز اعظمی نے یہاں کئی سال رہ کر تعلیم و تربیت اور امامت و خطابت اور دعوت و تبلیغ کا کام کیا۔‘‘[1] مولانا نے بھرپور تبلیغی و تدریسی زندگی گزاری، تاہم قلم و قرطاس سے بھی رشتہ تھا۔ جن کتابوں سے متعلق ہمیں آگاہی ہو سکی وہ حسبِ ذیل ہیں : 1 ’’النصرۃ الصمدیۃ‘‘ ترجمہ ’’العقیدۃ المحمدیۃ للفرقۃ الناجیۃ في الرد علی الفرقۃ المرجئۃ و المعتزلۃ و الجہمیۃ‘‘: مولانا علی حسن کے استاذِ گرامی مولانا عبد اللہ پنجابی گیلانی نے عربی میں ’’العقیدۃ المحمدیۃ للفرقۃ الناجیۃ في الرد علیٰ الفرقۃ المرجئۃ و المعتزلۃ و الجہمیۃ‘‘ کے نام سے سلف صالحین کے عقیدے کو نہایت عمدگی سے تحریر کیا ہے۔ کتاب دو حصوں پر محیط ہے۔ اس کا اردو ترجمہ مولانا علی حسن نے کیا۔ متن اور اس کا اردو ترجمہ ایک ساتھ طبع ہوئے۔ اس کے پہلے حصے کی ایک طباعت مطبع احمدی پٹنہ سے ۱۳۱۰ھ میں ہوئی۔ یہ پہلا حصہ ۱۸۰ صفحات پر محیط ہے۔ دوسرا حصہ مطبع احمدی پٹنہ سے ۱۳۱۱ھ میں طبع ہوا، تعدادِ صفحات ۲۱۴ ہے۔ 2 ’’مقدمۃ المغاث‘‘: مولانا نے اپنے دیار کے مولانا ابو النصر گیلانی کی کتاب ’’الغیاث من المغاث‘‘ کا جواب ’’المغاث لأھل الغیاث‘‘ کے عنوان سے دیا ہے، یہ اس کا فاضلانہ مقدمہ ہے جو بجائے خود ایک تصنیف ہے اور با قاعدہ مستقل تصنیفی عنوان کے ساتھ ’’المغاث‘‘ کے ساتھ ہی طبع ہوئی ہے۔ یہ مقدمہ ۵۶ صفحات پر محیط ہے۔ اس میں بعض علما کے قیمتی فتاوے بھی نقل کیے گئے ہیں ، ان علمائے کرام میں مولانا حافظ عبد اللہ غازی پوری،
[1] جھاڑ کھنڈ میں میاں صاحب کے تلامذہ، خدمات و اثرات (مضمون مشمولہ سیمینار بابت سیّد نذیر حسین محدث دہلوی منعقدہ ۲۰۱۷ء بمقام دہلی)