کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 705
یہاں سے جماعت مجاہدین کی معاونت کا کام انجام دیا جاتا رہا۔ مدرسے کے ایک استاد مولانا عبد الرحمن ملیح آبادی تھے جو ۱۳۰۳ھ میں یہاں تشریف لائے اور اس خوبی سے تمام ذمے داریاں نبھائیں کہ بانی مدرسہ مولانا احمد اللہ نے ۱۳۰۵ھ میں اپنی صاحبزادی ان کے حبالۂ عقد میں دے دی۔ مولانا عبد الرحمن نے یہیں سکونت اختیار کی اور ملیح آبادی کے بجائے دلال پوری کی صفتِ نسبتی سے معروف ہوئے۔ مولانا احمد اللہ خاں نے ۱۳۱۰ھ میں وفات پائی، جب کہ مولانا عبد الرحمن دلال پوری کی وفات ۱۰ صفر ۱۳۳۷ھ کو ہوئی۔[1]
حضرت میاں نذیر حسین محدث دہلوی کے بعض تلامذہ نے بھی یہاں دینی خدمات انجام دیں ۔ مولانا ابراہیم آروی اور مولانا عبد العزیز رحیم آبادی اپنی دعوتی سرگرمیوں کے لیے یہاں کا رخ کیا کرتے تھے۔ مولانا عبد الرحیم بیر بھومی اور مولانا عبد العزیز روانوی اعظمی نے عرصہ تک جھاڑ کھنڈ کے مختلف اضلاع میں بے مثال دعوتی و تبلیغی خدمات انجام دیں ۔ میاں صاحب کے ایک تلمیذِ رشید مولانا علی حسن مدھو پوری، جو گیلانی (ضلع نالندہ، بہار) سے تعلق رکھتے تھے، انھوں نے جھاڑ کھنڈ کے علاقے مدھو پور کو اپنی مستقل سکونت کے لیے منتخب کیا اور یہاں دینی، علمی اور تبلیغی خدمات انجام دیں ۔
اس وقت جھاڑ کھنڈ میں جو متعدد مدارس و مراکز قائم ہیں ، وہ انھیں عالی مرتبت علماء کی بے لوث دینی خدمات کا نتیجہ ہیں ۔
[1] مولانا احمد اللہ خاں عظیم آبادی اور ان کے داماد مولانا عبد الرحمن دلال پوری کے حالات کے لیے ملاحظہ ہو: ہفت روزہ ’’اہلِ حدیث‘‘ (امرتسر) ۱۰ جنوری ۱۹۱۹ء (مضمون نگار: مولانا ابو المعالی محمد علی مؤی)، جماعت اہلِ حدیث کی تدریسی خدمات (ص: ۱۰۵، ۱۰۶)