کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 704
جھاڑ کھنڈ جھاڑ کھنڈ کبھی بہار کا حصہ تھا، ۱۵ نومبر ۲۰۰۰ء میں اسے بھارت کی مستقل ریاست کا درجہ ملا۔ ۲۰۱۱ء کی مردم شماری کے مطابق اس کی آبادی تقریباً تین کروڑ تیس لاکھ نفوس پر مشتمل تھی، جس میں مسلمانوں کی آبادی کا تناسب ۱۴ سے ۱۵ فیصد تھا۔ جھاڑ کھنڈ کے مشہور شہروں میں رانچی، ہزاری باغ، پلاموں ، دھنباد، دُمکا، صاحب گنج، پاکوڑ، جمشید پور وغیرہا شامل ہیں ۔ رانچی یہاں کا صوبائی دار الخلافہ ہے۔ بہار کے جنوبی اضلاع ہی کو ۲۰۰۰ء میں جھاڑ کھنڈ کے نام سے ریاست کا درجہ حاصل ہوا۔ مسلمانانِ بہار کی تگ و تاز، ان کے علمی و فکری و سیاسی کارناموں کا اصل محور و مرکز شمالی بہار کا خطہ رہا ہے۔ یہی وجہ رہی کہ جھاڑ کھنڈ کا حصہ اسلامی ہند کی تاریخ میں بہت نمایاں نہیں ہے۔ تحریکِ اہلِ حدیث بھی اصلاً موجودہ بہار کے اضلاع میں پروان چڑھی، جب کہ جنوبی بہار (جھاڑ کھنڈ) کی طرف اس کے اثرات نسبتاً بہت کم رہے۔ جماعتِ مجاہدین کی تاریخ میں ایک اہم مقدمۂ سازش راج محل ۱۸۷۰ء کا ذکر ملتا ہے، جو بھاگل پور کمشنری کا حصہ تھا، لیکن اب ضلع صاحب گنج (جھاڑ کھنڈ) کا حصہ ہے۔ یہ مقدمہ تحریکِ مجاہدین کے ایک نمایاں فرد ابراہیم منڈل پر قائم کیا گیا تھا۔ منڈل اس نواح میں گاؤں کے چودھری یا سردار کو کہتے ہیں ۔ تحریک کی تاریخ میں ’’منڈل‘‘ کی صفتِ نسبتی کے حامل کئی بزرگوں کا ذکر ملتا ہے۔ ان کا تعلق اسی خطے سے تھا۔ جھاڑ کھنڈ میں جناب ابراہیم منڈل کے خانوادے نے دینی خدمات انجام دیں ۔ جھاڑ کھنڈ کے پہلے داعی توحید و سنت مولانا احمد اللہ خاں عظیم آبادی ہیں جو مولانا عنایت علی صادق پوری کے تلمیذِ رشید تھے اور انھیں کے ایماء پر جھاڑ کھنڈ کو مولانا نے اپنی دعوت و ارشاد کا مرکز و محور بنایا۔ مولانا احمد اللہ خاں نے ضلع دُمکا کے ایک مقام دلال پور میں ایک دینی درس گاہ ’’مدرسہ شمس الہدیٰ‘‘ کے نام سے ۱۲۹۴ھ میں قائم کی۔ یہ مدرسہ جھاڑ کھنڈ میں جماعت مجاہدین کا عظیم مرکز بنا۔ عرصہ تک