کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 702
اسٹیشن سے دو میل کی مسافت پر واقع موضع برہان پور (جو اب رحمان پور کہلاتا ہے) میں اقامت اختیار کی۔ یہیں اپنی خانقاہ بنائی اور یہیں مسندِ تدریس بھی آراستہ کی۔ مولانا رکن الدین داناؔ سہسرامی لکھتے ہیں : ’’آپ ایک صاحبِ استعداد اور جید عالم تھے، اور ادب و انشاء سے آپ کو خاص ذوق تھا۔ گاہے گاہے فکرِ سخن بھی فرماتے تھے، جو عموماً فارسی میں ہوتا تھا۔ حمد و نعت، مناقبِ بزرگان، غزلیات، قصائد وغیرہ ہر صنف میں کلام موجود ہے ….. آپ صاحبِ تصنیف و تالیف تھے، صرف، نحو، منطق، کلام، تصوف وغیرہ میں اکثر کتابیں تصنیف فرمائی ہیں ۔ آخر عمر میں تصوف میں غلو ہو گیا تھا۔ شاعری میں تمام مسائلِ تصوف پر اظہارِ خیال کیا ہے اور ہر شعر پر اسی کا رنگ چڑھا ہوا ہے۔ اس دیار میں آپ کے بے شمار مرید و معتقد ہیں ۔‘‘[1] مولانا کی تصانیف میں ’’لطائف حفظ السالکین‘‘، ’’مکتوبات لطیفی‘‘، ’’تلک عشرۃ کاملہ‘‘، ’’عجالہ نافعہ‘‘ اور ’’دیوانِ لطیفی‘‘ کا ذکر ملتا ہے۔ شاعری میں لطیفیؔ تخلص فرماتے تھے۔ فارسی اور اردو دونوں ہی زبانوں میں شعر کہتے تھے۔ مولانا کا دیوان ا ن کی وفات کے بعد ۱۳۳۸ھ میں ان کے تلمیذِ رشید مولانا محمد عابد چندی پوری مالدہی نے مطبع رحمانیہ مونگیر سے طبع کروایا۔ شمال مشرقی بہار میں مولانا کی تبلیغی و دعوتی زندگی کے نقوش بڑے گہرے ہیں ۔ اس وقت ان کے نام پر چار مدارس قائم ہیں جن کی تفصیل حسبِ ذیل ہے: 1 مدرسہ لطیفی، رحمان پور: جسے مولانا حفیظ الدین نے خود قائم کیا۔ 2 مدرسہ لطیفی کانگی: جسے مولانا کے تلمیذِ رشید مولانا شرف الدین حفیظی نے قائم کیا۔ 3 دارالعلوم لطیفی کٹیہار: اس کو مولانا کے ایک شاگرد مولانا محمد عابد چندی پوری مالدہی نے قائم کیا۔ 4 مدرسہ بحر العلوم لطیفی کٹیہار۔ مولانا کی طویل تدریسی زندگی میں متعدد طلابِ علم نے ان سے استفادہ کیا جن میں مولانا
[1] تحفۂ احسان (ص: ۵۶)