کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 700
مولانا نور الحق دربھنگوی
(وفات: ۱۳۵۵ھ/ نومبر ۱۹۳۶ء)
مولانا نور الحق دربھنگہ کے جید اہلِ حدیث عالم اور وکیل تھے۔ بابو بہاری لال فطرت نے ’’تواریخ الفطرت معروف بہ آئینہ ترہت‘‘ میں مظفرپور و دربھنگہ کے عدالت دیوانی و منصفی سے وابستہ وکلاء و مختاران کے ذیل میں مولانا نور الحق کا مختصر تذکرہ کرتے ہوئے لکھا ہے:
’’یہ بھی آدمی شریف اور عزت دار ہیں ۔ وکالت کرتے ہیں اور وکالت کو ان کی فروغ ہے۔ آدمی جوان، وضعدار و ذہین ہیں ۔ نائب وکیل سرکار ہیں ۔ تحریر و تقریر اچھی ہے۔‘‘[1]
مولانا نور الحق نے نومبر ۱۹۳۶ء/ ۱۳۵۵ھ میں وفات پائی، افسوس ان کے تفصیلی حالات نہیں ملتے، نہ ہی کسبِ علم کی سرگرمیوں سے واقفیت حاصل ہوتی ہے۔ ان کا اسمِ گرامی بھی ’’الحیاۃ بعد المماۃ‘‘ میں حضرت میاں صاحب کے تلامذہ کے ضمن میں مرقوم نہیں ۔ تاہم امرِ واقع یہ ہے کہ وہ سید نذیر حسین محدث دہلوی کے تلمیذِ رشید تھے، جیسا کہ ان کے بھتیجے عبدالحکیم نے حاجی پور (بہار) سے ان کی وفات کی اطلاع دیتے ہوئے لکھا ہے:
’’میرے عم محترم مولوی نور الحق صاحب وکیل سابق دیگوت ضلع دربھنگہ جو حضرت میاں صاحب مرحوم کے خاص شاگردوں میں سے تھے، انتقال فرما گئے۔ إنا للّٰه ‘‘[2]
[1] تواریخ الفطرت معروفہ بہ آئینہ ترہت (ص: ۲۸۹)
[2] ہفت روزہ ’’اہلِ حدیث‘‘ (امرتسر) ۱۳ نومبر ۱۹۳۶ء