کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 70
تکمیل کو پہنچ گیا تو فبہا، اس صورت میں سب کے خطوط واپس ملنے چاہئیں اور اگر ملتوی کر دیا گیا ہے تو بھی شائقین میاں صاحب کے خطوط کو اپنی نظروں سے جدا کرنا نہیں چاہتے، لہٰذا بہتر ہو گا کہ ان کے خطوط واپس کر دیے جائیں ۔ میں نے بھی حضرت میاں صاحب کے وہ خطوط جو بنام والد مرحوم تھے، ارسال کیے تھے، مجھے بھی وہ خطوط واپس کر دیے جائیں ، امید ہے کہ مولوی ابو الحسن صاحب دہلوی (میاں صاحب کے پوتے) اس کا تشفی بخش جواب دیں گے۔‘‘[1] ’’فتاویٰ نذیریہ‘‘ کی تدوین و اشاعت کے محرکِ اول بھی محدث ڈیانوی ہی تھے۔ اس کی طباعت بھی علامہ موصوف ہی کی رہینِ منت ہے۔ علامہ عبد السلام مبارک پوری لکھتے ہیں : ’’حضرت میاں صاحب مرحوم کا مجموعہ فتاویٰ انھیں کے اہتمام سے جناب مولانا عبدالرحمان صاحب مبارکپوری درست کر رہے ہیں ، جو سو جزو تک کلاں ورق پر پہنچ چکا ہے۔‘‘[2] ایک مدتِ بعید کے بعد ان فتاووں کی تدوین و ترتیب ایک مشکل مرحلہ تھا۔ ان منتشر اوراق کی یکجائی کوئی آسان کام نہیں تھا۔ حضرت میاں نذیر حسین دہلوی کے احفاد مولانا عبد السلام اور مولانا ابو الحسن لکھتے ہیں : ’’اس کے درست و مرتب کرنے میں محنتِ کثیر و زرِ خطیر صرف کرنا پڑا، اگرچہ اس کام میں دیر لگی اور حضرت میاں صاحب موصوف کے بعض معتقدین نے بعد انتظارِ بسیار نا امیدی سی اختیار کر لی، مگر جن اجزائے سوختہ و پریشان اور جن جواہر زواہر کو فراہم و اندوختہ کرنا تھا اس کے مرتب و منسلک کرنے میں جناب مولانا شمس الحق صاحب مرحوم ڈیانواں نے اور مولانا عبد الرحمن صاحب مبارک پوری نے جس قدر محنت و جانفشانی سے کام کیا ہے، وہی اس کے شاہد عادل بھی ہو سکتے ہیں کہ یہ فتاویٰ کس قدر دقت اور صرف سے مہیا و مرتب ہوئے ہیں ۔‘‘[3]
[1] ہفت روزہ ’’اہلِ حدیث‘‘ (امرتسر) ۱۳ اکتوبر ۱۹۱۹ء [2] ہفت روزہ ’’اہلِ حدیث‘‘ (امرتسر) ۲۸ اپریل ۱۹۱۱ء [3] فتاویٰ نذیریہ (ص: ۷، ۸)