کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 699
دینی حمیت:
مولانا میں دینی حمیت بھی بہت تھی۔ آخر عمر میں مولانا معذور ہو گئے تھے، زمانہ معذوری ہی کا واقعہ ہے کہ جامع مسجد بندھولی میں خطبہ جمعہ میں خطیب نے ایک حدیث غلط طور سے بیان کی، مولانا برداشت نہ کر سکے اور فرمایا کہ کیا کوئی ایسا آدمی نہیں جو اس مولوی کو منبر سے کھینچ کر نیچے اتار دے۔ چنانچہ اس خطیب کو نیچے اتار دیا گیا۔
مہمان نوازی:
مولانا انتہائی ملنسار اور مہمان نواز تھے۔ جس کسی نے بھی مولانا کے درِ دولت پر دستک دی تو مولانا کے لیے گویا لازم ہوگیا کہ اس کی مدد کریں ۔ جو مہمان حاضر ہوتا، پہلے اس کی ضیافت کرتے اور پھر آمدِ مقصد دریافت کرتے۔ مسافروں کے لیے مولانا کا درِ دولت کھلا رہتا۔ اپنی جیبِ خاص سے لوگوں کی مدد کرتے۔ ایک بار اپنے استاذ گرامی سیّد نذیر حسین دہلوی کو اپنے گھر مدعو کیا۔ استاد کے لیے ان کے دل میں کس درجہ احترام تھا، اس کا اندازہ اس امر سے لگائیے کہ جب عالی مرتبت استاد اسٹیشن پر اترے تو مولانا اپنے بھائیوں سمیت استقبال کے لیے پہلے سے موجود تھے۔ پالکی کا انتظام کیا گیا اور کہاروں کی جگہ خود اور ان کے بھائیوں نے کاندھا دیا اور میاں صاحب کو اپنے گھر تک لائے۔
کتب خانہ:
مولانا کے ذاتی ذخیرئہ کتب میں نادر اور کمیاب کتابوں کا ایک بڑا خزانہ جمع ہو گیا تھا، جو ان کی وفات کے بعد ان کے نواسے ڈاکٹر محمد عزیز نے دار العلوم احمدیہ سلفیہ (دربھنگہ) کو وقف کر دیا۔
وفات:
مولانا محمد صالح نے ۱۲ رجب ۱۳۴۱ھ بمطابق ۲۸ فروری ۱۹۲۳ء کو اس دارِ فانی سے رحلت فرمائی۔[1]
[1] مولانا محمد صالح بندھولی کے حالات کے لیے ملاحظہ ہو: تراجم علمائے اہلِ حدیث (۱/ ۳۵۔۳۷)، روزنامہ ’’قومی تنظیم‘‘ (پٹنہ) ۲۲ اگست ۲۰۱۷ء (مضمون نگار: اشرف منظور عالم سلفی)