کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 698
کی تعلیم و تربیت کے لیے مخصوص کر رکھا تھا جن سے خاندان اور گاؤں کے دیگر بچے بھی مستفید ہوتے تھے۔ مولانا نے ابتدائی تعلیم ان ہی سے حاصل کی۔ اس کے بعد مظفر پور میں کچھ عرصہ تعلیم حاصل کرتے رہے۔ پھر غازی پور کے مشہور مدرسہ چشمۂ رحمت میں کتبِ درسیہ کی تکمیل کی۔ وہاں سے فراغت کے بعد دہلی میں سیّد نذیر حسین محدث دہلوی سے تفسیر و حدیث اور دیگر علوم و فنون کی تحصیل کی۔
تدریس و تبلیغ:
مولانا کا خانوادہ علمائے صادق پور کی تحریکِ جہاد سے وابستہ تھا۔ جب مولانا تکمیلِ علم کے بعد تشریف لائے تو مولانا عبد الرحیم صادق پوری کے ایما پر مولانا صالح نے راجشاہی (بنگلہ دیش) میں عرصہ تک درس و تدریس کے فرائض انجام دیے۔ کچھ عرصہ آسنسول میں بھی بغرضِ درس و تدریس مقیم رہے۔ تاہم خرابیِ صحت کی بنا پر اپنے گھر میں مقیم ہوئے اور یہیں کاشتکاری کر کے گزر بسر کرنے لگے۔
حاشیہ نویسی:
مولانا بنیادی طور پر مدرس و مبلغ تھے، تصنیف و تالیف کی طرف متوجہ نہ ہو سکے، تاہم اپنے زیرِ مطالعہ کتابوں پر حواشی لکھتے تھے۔یہ کتابیں حافظ حکیم عبد الباری رحمانی کے پاس موجود تھیں ، جیسا کہ انھوں نے ’’تاریخِ بندھولی‘‘میں لکھا ہے۔[1]
خدماتِ جلیلہ:
جیسا کہ عرض کیا گیا کہ مولانا صالح تحریکِ مجاہدین سے وابستہ تھے۔ وہ مولانا عبد الرحیم صادق پوری سے بیعت تھے۔ اسی لیے مجاہدین کے لیے چندہ جمع کرنے کا کام کیا کرتے تھے۔ بے حد متشرع اور پابندِ شریعت تھے۔ مولانا نے اپنے علاقے میں ایک بیت المال بھی قائم کیا تھا جس کے ذریعے عشر، زکات، فطرات، صدقات اور چرمِ قربانی وغیرہا جمع کیے جاتے اور پھر انھیں منظم طریقے سے علاقے کے ضرورت مندوں اور دیگر مصارف پر خرچ کیا جاتا۔ یہ مولانا ہی کا اخلاص تھا کہ ان کا قائم کردہ یہ نظام آج بھی برقرار ہے۔
[1] روزنامہ ’’قومی تنظیم‘‘ (پٹنہ) ۲۲ اگست ۲۰۱۷ء (مضمون نگار: اشرف منظور عالم سلفی)