کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 697
دربھنگہ اور سمستی پور کے دیگر تلامذۂ کرام
مولانا محمد صالح بندھولی(وفات: ۱۲ رجب ۱۳۴۱ھ/ ۲۸فروری ۱۹۲۳ء)
مولانا محمد صالح[1] دربھنگہ کے جید عالم، مبلغ،مدرس اور جماعتِ مجاہدین کے سرگرم کارکن تھے۔
خاندانی پسِ منظر و ابتدائی حالات:
مولانا کا مختصر سلسلۂ نسب حسبِ ذیل ہے: مولانا محمد صالح بن گوہر علی بن محمد زماں بن محی الدین بن ملا دانش بن تاج الدین بن شفیع الرحمن بن ملا عبد الشکور۔
۱۲۶۹ھ بمطابق ۱۸۵۲ء کو دربھنگہ کی ایک بستی دیو را بندھولی میں مولانا محمد صالح کی ولادت ہوئی۔ مولانا کے والدِ گرامی دینی مزاج کے حامل تھے۔ انھوں نے اپنی اولاد کے سامنے یہ شرط عائد کر رکھی تھی کہ ان کی اولاد میں جو دینی علوم کی تحصیل کر کے دین کی خدمت کا فریضہ انجام دے گا، اسے وہ اپنی جائیداد میں سے قیمتی حصہ دیں گے۔ مولانا محمد صالح دینی علوم کی طرف بدوِ شعور ہی سے رغبت رکھتے تھے، یہی وجہ تھی کہ جب وہ تحصیلِ علم کر کے واپس آئے تو ان کے والد نے وعدے کے مطابق انھیں اپنی جائیداد کا قیمتی حصہ دیا جو انھوں نے دینی خدمت میں استعمال کیا۔
کسبِ علم کے مختلف مراحل :
مولانا صالح کی ابتدائی تعلیم گھر ہی پر ہوئی۔ مولانا کے والد نے ایک عالمِ دین کو اپنے گھر میں بچوں
[1] ’’تراجم علمائے اہلِ حدیث‘‘ میں مولانا خالد حنیف صدیقی نے ابو صالح لکھا ہے، جب کہ ’’ الحیاۃ بعد المماۃ‘‘ میں تلامذہ کی فہرست میں مولانا محمد صالح بندھولی درج ہے۔ روزنامہ ’’قومی تنظیم‘‘ میں ان کی سوانح پر شائع ہونے والے مضمون میں ان کا نام محمد صالح تحریر کیا گیا ہے۔ مضمون نگار مولانا ممدوح کے خانوادے سے تعلق رکھتے ہیں ۔