کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 691
غازی پوری فرماتے تھے:
’’سارے فنون میں ایسی مناسبت رکھتے تھے کہ اگر ایک فن میں ان سے گفتگو کی جاتی تو معلوم ہوتا کہ شاید اسی فن میں یہ کمال ہے، دوسرے میں نہ ہو گا، مگر جب دوسرے میں گفتگو کی جاتی تو ویسا ہی کمال پاتے۔ ادائے مقصود میں اپنا نظیر نہیں رکھتے تھے۔‘‘ [1]
مولانا عبد العزیز رحیم آبادی کے نواسے سیّد جلیل اختر لکھتے ہیں :
’’مولانا محمد یٰسین صاحب پسر چہارم شیخ احمد اللہ کے تھے۔ یہ بھی بڑے عالم تھے۔ ان کو منطق و فلسفہ میں خاص شغف تھا۔ اس فن میں چند کتا بیں بھی لکھی ہیں لیکن طبع نہیں ہو سکیں ۔ تعلیم و تعلم کا بڑا شوق تھا۔ ذاتی مدرسہ بھی کھول رکھا تھا۔ خود ہی پڑھاتے تھے۔ نادار طلبہ کی کفالت بھی کرتے تھے۔ افسوس کہ بہت ہی کم عمر پائی۔ کچھ اور زندہ رہتے تو اپنے وقت کے رازی و غزالی ہوتے۔ مولانا سیّد نذیر حسین دہلوی کے ارشد تلامذہ میں تھے۔‘‘[2]
تدریس:
تکمیلِ علم کے بعد ہی سے مولانا نے تدریس کا آغاز کیا۔ دہلی، رحیم آباد اور عظیم آباد میں تدریس کے فرائض انجام دیے۔ تاہم ان تینوں ہی مقامات میں اس فرض کا دورانیہ بہت مختصر رہا۔
تصانیف:
مولانا یٰسین نے چند کتابیں بھی لکھیں ، زیادہ تر مسودات ضائع ہو گئے۔ ان کی چند کتابوں سے متعلق آگاہی ہو سکی جن کی تفصیل حسبِ ذیل ہے :
1 ’’التحقیق المزید لمن ھو في بطن أمہ سعید لا لمن ھو متبع شیطان مرید‘‘:
یہ کتاب مطبع فاروقی دہلی سے ۱۳۰۵ھ میں طبع ہوئی۔
2 ’’رسالۃ في التقلید‘‘:
اس کا مخطوطہ خدا بخش لائبریری پٹنہ میں زیر رقم Acc 4087/2موجود ہے۔صرف اڑھائی
[1] ہفت روزہ ’’اہلِ حدیث‘‘ (امرتسر) ۷ اکتوبر ۱۹۲۷ء
[2] حدیقۃ الانساب (۱/۵۷)