کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 690
واعظ دہلوی، مولانا عبد الجبار غزنوی، مولانا محمد حسین بٹالوی، قاضی احتشام الدین مراد آبادی، حافظ عبداللہ غازی پوری، ملا صدیق پشاوری، مولانا وصیت علی نگینوی وغیرہم، جب کہ بہار سے علامہ شمس الحق عظیم آبادی، مولانا ابراہیم آروی، مولانا عبد الغفار نشرؔ مہدانوی، مولانا تلطف حسین عظیم آبادی وغیرہم شریک ہوئے۔ سید نذیر حسین دہلوی نے خطبۂ نکاح پڑھایا۔ اسلامی اصول و آداب کے مطابق شادی کی تقریب منعقد کی گئی اور تکمیل پذیر ہوئی۔ اس مجمع کی روداد قاضی احتشام الدین مراد آبادی نے اخبار ’’نظام الملک‘‘ میں تحریر کی تھی۔ سیّد نذیر حسین دہلوی سے تعلق: مولانا یٰسین انتہائی ذہین اور کمال درجہ کی فطانت کے حامل تھے۔ زمانۂ طالب علمی ہی سے ان کی ذہانت و فطانت کے آثار نمایاں تھے۔ سیّد نذیر حسین دہلوی نے شیخ احمد اللہ سے خواہش کی تھی کہ وہ اپنا یہ فرزند انھیں دے دیں ، تاکہ وہ ان کی تربیت کریں اور اپنے پاس دہلی میں رکھیں ، پھر اپنا معاون و جانشین بنائیں ۔ مگر شیخ احمد اللہ کو اپنے فرزند سے بڑی محبت تھی، وہ اپنے صاحبزادے کی جدائی برداشت نہیں کر سکتے تھے، پھر دوسری وجہ یہ تھی کہ شیخ صاحب رحیم آباد میں ایک بڑی درس گاہ قائم کرنا چاہتے تھے جہاں وہ باہر کے طلابِ علم کو قیام و طعام اور وظائف کی سہولت مہیا کر کے کسبِ علم کے مواقع فراہم کرتے، اس کے لیے انھیں اپنے صاحبزادوں کا تعاون درکار تھا، بالخصوص مولانا یٰسین سے امیدیں وابستہ تھیں ۔یہی وجہ تھی کہ شیخ صاحب نے میاں صاحب محدث دہلوی کو انکار کر دیا۔ اللہ کا کرنا یہ ہوا کہ مولانا یٰسین کو جلد ہی بلاوا آ گیا اور وہ محض ۲۲ برس کی عمر میں دارِ فانی سے کوچ کر گئے۔ ان کی حسرت ناک وفات نے ان سے وابستہ تمام افراد کو غم ناک کر دیا۔ بوڑھے باپ کو اس درجہ صدمہ ہوا کہ روتے روتے آنکھیں بینائی سے محروم ہو گئیں ۔ اس حالت میں اکثر فرمایا کرتے کہ میں نے میاں صاحب کی بات رد کر دی، جو اللہ تعالیٰ کو پسند نہ آئی، اس لیے یہ لائق فرزند مجھ سے واپس لے لیا۔ علم و فضل: مولانا کے غیر معمولی علم و فضل کا شہرہ ان کے زمانہ طالب علمی ہی سے تھا۔ علامہ حافظ عبد اللہ