کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 686
’’بابو لیاقت حسین صاحب خود زمیندار اور بڑے کاشتکار تو تھے ہی، ساتھ ہی بہت ہی دیندار اور جماعت کے مخلص تھے۔ مولانا کی صحبت میں بھی رہے اور ان کے بعد اپنی جائیداد کے ساتھ ہی مولانا مرحوم کی جائداد کا بہترین انتظام کرتے رہے۔ آزادی کے بعد قومی ہمدردی کی وجہ سے حکومت کی طرف سے ناحق پریشان کیے گئے اور برسوں بلا وجہ جیل میں بھی رکھا۔ جیل سے نکلنے کے بعد ہی ۱۹۴۹ء میں انتقال کر گئے۔ إنا للّٰه ‘‘[1] شاہ لیاقت حسین سے مولانا کے دو نواسے اور تین نواسیاں ہوئیں ۔ نواسیوں میں بڑی نواسی کی شادی عبد الرب رحیم آبادی سے ہوئی جو مولانا کے ایک بھائی مولانا محمد یٰسین کے نواسے اور دوسرے بھائی مولوی عبد الوہاب کے پوتے تھے۔ دوسری نواسی کی شادی شاہ عین الحق پھلواروی کے نواسے مولوی قرۃ العین سے ہوئی۔ علامہ رحیم آبادی کی سوانح: علامہ عبد العریز رحیم آبادی کی سوانح تحریر کرنے کا احساس تو ان کے حلقۂ ارادت کو ان کی وفات کے فوراً بعد ہی ہو گیا تھا۔ چنانچہ اس زمانے میں مولانا کے تلمیذِ رشید حافظ محمد صدیق مرولوی نے مولانا کی سوانح و خدمات پر دو اقساط میں مضمون لکھا جو ہفت روزہ ’’اہلِ حدیث‘‘ (امرتسر) میں شائع ہوا۔[2] مولانا عبد الغفار صادق پوری نے مستقل سوانح کی تجویز پیش کی۔[3] یہ بھی پڑھنے میں آیا کہ مولانا کی مستقل سوانح لکھی جا رہی ہے۔ تاہم منصہ شہود پر چند مضامین کے سوا کچھ نمایاں نہ ہو سکا۔ ’’دار العلوم احمدیہ سلفیہ‘‘ دربھنگہ کے ترجمان ہفت روزہ ’’الہدیٰ‘‘ نے اپریل و مئی ۱۹۵۹ء کو ’’دار العلوم‘‘ نمبر نکالا، جس میں دار العلوم کے متعلق مفید مضامین شامل کیے گئے، و نیز اس دور کے دیگر اہلِ حدیث مدارس کا بھی تعارف کرایا گیا ہے۔ اس خاص شمارے کے متفرق صفحات پر مولانا کا تذکرہ موجود ہے۔ خاص ان پر سوانحی مضمون مولانا عبید الرحمن عاقلؔ رحمانی کے قلم سے ہے۔
[1] حسن البیان والے مولانا عبد العزیز رحیم آبادی (ص: ۱۴۵) [2] ہفت روزہ ’’اہل حدیث‘‘ (امرتسر) ۱۲ مارچ، ۲۶ مارچ ۱۹۲۰ء [3] ہفت روزہ ’’اہل حدیث‘‘ (امرتسر) ۱۲ اپریل ۱۹۱۸ء