کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 683
بڑھروہ کا مشہور مقدمہ دیوانی و فوجداری اور اس میں کامیابی آپ ہی کے جدوجہد کا کرشمہ تھا۔ ان دونوں مقدمات میں تقریباً اسی ہزار روپیہ صرف ہوا، جو اسی ذاتِ واحد کی جانفشانیوں سے پورا ہوا تھا۔ فریقِ مخالف کے حامی و مددگار چودھری مہا دیو پرشاد رئیس محلہ یحییٰ پور الٰہ آباد کے تھے۔ ان کے تئیس مواضعات دورِ عالمگیری سے نابکار اس علاقہ میں چلے آ رہے تھے۔ ان سب مواضعات میں قربانی گاؤ قطعاً بند تھی۔ بہ حکم فیصلہ پریوی کونسل رسمِ قربانی جاری ہو گئی۔ آپ کے ہزارہا مرید صوبہ بنگال و پنجاب میں تھے۔ مواضعاتِ ترہت کے صدہا خاندان آپ کے عقیدت مند تھے۔ آپ جید حافظ بھی تھے، عالم بھی تھے اور عامل بھی۔ فنِ طبابت میں پورا دخل تھا۔ عامل ایسے زبردست تھے کہ ہزاروں آسیب زدہ مریض بہ یک نگاہ صحت یاب ہو گئے۔ فنِ خطابت میں عدیم النظیر اور فقید المثال تھے۔ حافظہ اس قدر قوی تھا کہ سیکڑوں احادیث مع اسناد نوکِ زبان تھیں ۔ کتابوں کے صفحات و سطور تک محفوظ تھے۔ سند حدیث کی جناب مولانا سیّد نذیر حسین صاحب دہلوی سے حاصل کی تھی۔ علاوہ ازیں فن طباخی، شہ سواری اور فیل بانی میں بھی مہارت رکھتے تھے۔
’’الغرض جامع صفات آدمی تھے۔ مزاج میں علو حوصلگی تھی۔ خلوص و محبت سے سرشار تھے۔ دل ہر وقت دردِ قومی سے مجروح رہتا تھا۔ مہمان نوازی آپ کی مشہور تھی۔ کسی دن اور کسی وقت بھی گھر مہمان سے خالی نہیں رہتا تھا۔ اگر کبھی سوئے اتفاق سے کوئی مہمان نہ رہا تو خود ہی عازمِ سفر ہو جاتے تھے۔ مساجد بنوائیں ۔ جمعے قائم کیے۔ مدارسِ اسلامی جاری کرائے۔ چنانچہ مدرسہ سلفیہ دربھنگہ بھی ان کی یادگار ہے۔ یہ ایک ایسی ذات تھی جو صدیوں میں پیدا ہوتی ہے۔ اس مختصر میں اتنی گنجائش نہیں ہے کہ ان کے اوصاف کے متعلق کچھ شمۃً بھی عرض کیا جا سکے۔ موضع رحیم آباد کا نام طول و عرض ملکِ ہند آپ کے جائے وطن ہونے کے باعث مشہور و معروف ہے۔ عمر آپ کی چھیاسٹھ سال ہوئی۔ ۱۷ مارچ ۱۹۱۸ء میں یہ آفتابِ ترہت غروب ہو گیا۔ خاندانی قبرستان میں محوِ خوابِ راحت ہیں ۔‘‘[1]
[1] حدیقۃ الانساب (۱/ ۵۳، ۵۴)