کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 682
تَبْدِيلًا } کے خدائی قانون کے مطابق اپنی وفاداریاں نباہ کر اللہ کے پیارے ہو گئے۔‘‘[1] حافظ اسلم جیراج پوری کا تاثر: حافظ محمد اسلم جیراج پوری نے اپنی یادوں کے دریچوں سے جھانک کر جن علمائے اہلِ حدیث سے متعلق اپنے تاثرات قلمبند کیے، ان میں سے ایک علامہ عبد العزیز رحیم آبادی بھی ہیں ۔ لکھتے ہیں : ’’مولوی عبد العزیز صاحب رحیم آبادی بھوپال کبھی تشریف نہیں لائے، مگر مرشد آباد کے مناظرہ اور مولوی شبلی نعمانی کی سیرۃ النعمان کی تنقید حسن البیان نے ان کو اہلِ حدیث میں بہت مقبول بنا دیا تھا۔ مجھے ان کے دیکھنے اور ان سے ملنے کی آرزو تھی۔ جس زمانہ میں میں علی گڑھ میں تھا، اس زمانہ میں وہاں آل انڈیا اہلِ حدیث کانفرنس کے جلسہ میں تشریف لائے تھے، جاکر ملاقات کی اور کئی گھنٹے خدمت میں رہا۔ ان کی متانت اور معقولیت دل کش تھی۔ مجھے معلوم ہوا کہ وہ نہ صرف عالمانہ بلکہ مجاہدانہ صفات کے آدمی ہیں ۔‘‘[2] سیّد جلیل اختر کے تاثرات: اب آخر میں مولانا کے نواسے سیّد جلیل اختر کے تاثرات ملاحظہ فرمائیے۔ سیّد جلیل اختر نے شمالی بہار کے خانوادئہ سادات و شیوخِ عظام پر ایک کتاب ’’حدیقۃ الانساب‘‘ دو جلدوں میں تحریر کی تھی، اس کی غالباً پہلی جلد ہی منظرِ شہود پر آ سکی۔ اپنی اس کتاب میں وہ اپنے عالی قدر نانا کے بارے میں تحریر فرماتے ہیں : ’’یہ شیخ (احمد اللہ) صاحب کے تیسرے فرزند تھے۔ بیہقیِ زماں اور دارقطنیِ دوراں تھے۔ علمِ معقول و منقول دونوں میں لا ثانی، فلسفہ و منطق میں عدیم المثال۔ علمائے عصر نے امام المناظرین کا لقب دیا تھا۔مناظرۂ مرشد آباد اس امر پر دال ہے۔ علاقہ ترہت کے اکثر مواضعات میں جہاں اسلام صرف اسی قدر تھا کہ لوگ اسلامی نام رکھتے تھے، از سر نو تجدیدِ اسلام کی۔ جہاں اذان تک نہیں ہو سکتی تھی، وہاں قربانی گاؤ کا اجرا کرایا۔ حسن پور
[1] حسن البیان، مقدمہ (ص: ۵۲ تا ۵۵) [2] نوادرات (ص: ۳۹۱)