کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 681
ساتھ جماعت مجاہدین کا کام کرتے تھے، اور یہ کام اس رازداری اور خوبصورتی سے ہوتا تھا کہ انگریز کی عقابی نگاہیں برسوں اس کا سراغ نہ لگا سکیں ۔ معلوم نہیں یہ اطلاع کہاں تک درست ہے کہ مرحوم کی گرفتاری کے احکام اس دن پہنچے جب مرحوم اپنی ذمہ داریوں سے سبکدوش ہو کر جنت کے دروازے پر پہنچ کر داخلہ کی اجازت کے لیے دستک دے رہے تھے، اور {طِبْتُمْ فَادْخُلُوهَا خَالِدِينَ } کی آواز کے منتظر تھے، پولیس جنازہ دیکھ کر واپس آ گئی۔ اللھم اغفر لہ وارحمہ و أدخلہ الجنۃ۔ آمین
’’میں نے مرحوم کو پہلی دفعہ وزیر آباد میں دیکھا ، جمعہ کے دن مولانا فضل الٰہی صاحب رحمہ اللہ کے ہاں کھانا تناول فرما کر مسجد اہلِ حدیث میں آئے۔ مرحوم حضرت الاستاذ الامام الشیخ حافظ عبد المنان صاحب نے منبر خالی فرما دیا۔ میری عمر غالباً اس وقت دس گیارہ سال ہو گی۔ وعظ میں عجیب رقت تھی، غالباً وعظ اخلاص فی العمل کے موضوع پر تھا۔ میں صغر سنی کے باوجود انتہائی رقت محسوس کر رہا تھا اور پورے مجمع پر یہ کیفیت طاری تھی۔ مولانا ثناء اللہ صاحب رحمہ اللہ کا یہ ارشاد ان کے متعلق بالکل حرف بحرف صحیح تھا:
اثر لبھانے کا پیارے تیرے بیان میں ہے
کسی کی آنکھ میں جادو تیری زبان میں ہے
’’اس کے بعد مولانا ۱۶، ۱۹۱۷ء میں دہلی آئے، وہاں بھی زیارت کا موقع ملتا رہا، عموماً مجلس میں خاموشی ہوتی۔ یہ مبارک مجلس گلہ اور قہقہہ دونوں سے خالی ہوتی۔ آخری زیارت علی گڑھ اہلِ حدیث کانفرنس کے اجلاس میں ہوئی۔
’’مدراس کانفرنس میں غالباً کسی نے یہ شعر پڑھا:
کیا خوب ہوتا وہ بھی گر آج زندہ ہوتے
عبد العزیز نامی ’’حسن البیان والے‘‘
پوری مجلس اشک بار ہو گئی۔ حضرت مولانا ثناء اللہ صاحب مرحوم اکثر یہ شعر پڑھتے اور آنکھیں برسنے لگتیں ۔ مرحوم کو مولانا رحیم آبادی رحمہ اللہ سے والہانہ محبت تھی اور وہ ان کی رفاقت پر ہمیشہ فخر فرماتے۔ آہ! یہ مقدس گروہ {فَمِنْهُمْ مَنْ قَضَى نَحْبَهُ وَمِنْهُمْ مَنْ يَنْتَظِرُ وَمَا بَدَّلُوا