کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 680
جس کی تکمیل ان کے وفادار اور محقق تلمیذ حضرت مولانا سید سلیمان صاحب ندوی نے فرمائی۔ رحہما اللّٰه رحمۃ واسعۃ وجعل الجنۃ مثواھما۔
’’یہی حال حضرت مولانا عبد العزیز صاحب رحیم آبادی قدس اللہ روحہ کا تھا۔ ابتدائے عمر میں زیرِ طباعت کتاب حسن البیان لکھی، ہدایۃ المعتدی اور ایک آدھ رسالہ شاید شیعہ کے متعلق لکھا، اور ..... قلم بالکل رک گیا۔ مولانا کے حقیقت پسند مزاج نے محسوس فرمایا کہ ان مذہبی، فقہی اور فرقہ وارانہ منازعات کی اصل علت ہندوستان میں انگریز کی بالا دستی ہے، جب تک یہ دیو ملک میں کار فرما ہے، ملک میں امن ممکن نہیں ۔ اس ضمن میں مولانا کے سامنے دو پروگرام تھے، سیاسی اور تبلیغی۔ سیاسی کے لیے دو طریقِ کار تھے، اول تحریکِ مجاہدین کی سرپرستی، جو اس وقت انگریز کے مظالم کی وجہ سے انڈر گراؤنڈ ہو چکی تھی، اکابرِ دیوبند اس سے تعلق توڑ چکے تھے، اکابرِ پٹنہ اپنی زندگیا ں اس راہ میں وقف کر چکے تھے اور لاکھوں روپیہ مرحوم کی وساطت سے تحریک کو ملتا تھا۔ مرحوم خود بڑے دولت مند اور بڑے زمیندار تھے، ان کا تعلق اچھے کھاتے پیتے خاندان سے تھا، واجبی ضروریات کے بعد پوری آمد تحریکِ مجاہدین میں صرف فرماتے تھے۔ مرحوم کے یہ خیال تحریکِ عدمِ تعاون سے برسوں پہلے تھے۔
’’دوسرا طریقہ انگریزی مال کے بائیکاٹ کا تھا، خود موٹا گاڑھا کھدر گھر کا بنا ہوا پہنتے، سردیوں میں کشمیری شال استعمال فرماتے، قلم سے لکھتے ، نب اور انگریزی قلم کا استعمال سخت ناپسند فرماتے۔ مولانا ثناء اللہ صاحب مرحوم تبلیغی امور میں ان کے شریکِ کار تھے، مولانا نے تبلیغ کے لیے آل انڈیا اہلِ حدیث کانفرنس کی تاسیس، مدرسہ سلفیہ آرہ (بہار) کی سرپرستی فرمائی، ساتھ ہی انگریز کے خلاف جہاد کا محاذ بھی برابر کھولے رکھا۔
’’مولانا مرحوم کے مزاج میں عجیب تنوع تھا۔ ایک طرف وہ ان حضرات کے ساتھ اہلِ حدیث کانفرنس کے سٹیج پر کام کرتے ، دوسری طرف مولانا فضل الٰہی وزیر آبادی رحمہ اللہ ، صوفی ولی محمد مرحوم فتوحی والد اکبر شاہ آف سخانہ، مولوی الٰہی بخش بمبانوالہ، قاضی عبدا لرحیم صاحب، قاضی عبید اللہ، قاضی عبد الرؤف (قاضی کوٹ) اور مولانا عبد القادر صاحب قصوری کے