کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 68
’’مولانا مولوی شمس الحق صاحب رئیس ڈیانواں نے حضرت میاں صاحب مرحوم کی سوانح عمری کا لکھنا شروع کیا ہے اور اس کی نسبت مولانا ممدوح نے اخبار شحنۂ ہند میرٹھ و وکیل ہند امرتسر میں اس مضمون کا اشتہار بھی دیا تھا کہ حضرت میاں صاحب مغفور کے حالات و سوانحات کے متعلق جن صاحبان کو کچھ معلوم ہو وہ بذریعہ تحریر بھیج دیں ، تاکہ سوانح عمری کی تحریر میں تائید ملے، لیکن اب تک اس پر کچھ توجہ نہ ہوئی۔ بہت ہی کم تحریر اس بارہ میں مولانا کے پاس پہنچی، اس لیے پھر بطور یاد دہانی مطلع کیا جاتا ہے کہ اب بھی وقت باقی ہے، تین ماہ تک، اور اس قسم کی تحریرات کا انتظار رہے گا۔ امید ہے کہ ناظرین علماء نامدار و دیگر صاحبان اس بارہ میں اپنے وسیع معلومات سے مولانا شمس الحق صاحب کو مقام ڈیانواں ڈاکخانہ کرائے پر سرائے ضلع پٹنہ مطلع فرماویں ۔‘‘[1] جب مولانا فضل حسین بہاری نے حضرت میاں صاحب کی سوانح لکھنے کا خیال ظاہر کیا تو علامہ عظیم آبادی نے اپنا جمع کردہ تمام تر مواد بخوشی انھیں دے دیا۔ یہ کمالِ ایثار کی انتہائی غیر معمولی مثال ہے، جس کی نظیر کم ہی ملے گی۔مولانا فضل حسین لکھتے ہیں : ’’میری کافی مدد اس خصوص میں مولانا مولوی ابو الطیب محمد شمس الحق صاحب سلمہ اللہ تعالی رئیس موضع ڈیانواں ضلع پٹنہ مولف ’’غایۃ المقصود شرح سنن ابی داود‘‘نے کی کہ اپنا انتالیس برس کا جمع کیا ہوا سرمایہ میرے پاس نہایت ہی خوشی سے بھیج دیا اور میری ہمت بڑھانے میں اس طرح کوششِ بلیغ کی کہ ہندوستان کے مختلف حصص میں خط لکھا اور بہتیرے اخباروں میں اشتہار دیا کہ ’’مولانا سید محمد نذیر حسین علیہ الرحمۃ محدث دہلوی کے سوانح لکھے جاتے ہیں ، جن حضرات کے پاس جو کچھ مواد اس کے متعلق کتابتاً یا روایتاً موجود ہو بذریعہ تحریر کے میرے پاس بھیج دیں ۔‘‘ نتیجہ اس کوشش کا یہ ہوا کہ مختلف حصصِ ملک سے دونوں قسم کے مواد (مکتوبہ و مرویہ) ان کے پاس لگاتار پہنچتے رہے اور وہ میرے پاس وقتاً فوقتاً بھیجتے اور حوصلہ بڑھاتے رہے۔ ممدوح کو اس سوانح عمری کے ساتھ ایک
[1] ماہنامہ ’’ضیاء السنۃ‘‘ (کلکتہ) ذیقعد ۱۳۲۰ھ