کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 679
گھر یہ اجڑا ہے کہ تو رونقِ محفل نہ رہا
’’اور اس کا تذکرہ آگے آتا ہے کہ مولانا ممدوح کتنے شیریں زبان واعظ تھے! کانفرنس کے جلسوں میں ان کے وعظ سننے کا فخر راقم کو بھی حاصل ہے۔ کانفرنس کی مجالسِ وعظ میں سحبانِ ہند اور فاتحِ پنجاب تک نطقِ ہمایونی اور رنگِ جلالی بر روئے کار ہوئے۔ مولانا عبدالتواب صاحب غزنوی اور حافظ عبد الوہاب صاحب نابینا دہلوی کے سروِ حدیث سے کانفرنس کے جلسے سراپا اثر بن جاتے، مگر جب مولانا رحیم آبادی کا وعظ شروع ہوتا تو گویا ع
نظمِ عبودیت پڑھی میں نے کچھ ایسے لحن سے
ہنس کے رُباب اٹھا لیا نغمہ زنِ الست نے اور اس سے کوئی منصف مزاج انکار نہیں کر سکتا۔‘‘[1]
مولانا محمد اسماعیل سلفی کے تاثرات:
مولانا محمد اسماعیل سلفی نے مولانا رحیم آبادی کی مایۂ ناز تصنیف ’’حسن البیان‘‘ کے چوتھے ایڈیشن کا مقدمہ لکھا ہے، جس میں ’’حسن البیان‘‘ کی تصنیف کا پس منظر اور علمی دنیا میں اس کے مقام کا تعین کیا ہے۔ مولانا سلفی کو مولانا محدث رحیم آبادی کی زیارت کا شرف بھی حاصل تھا، لہٰذا اپنے تحریر کردہ مقدمے میں انھوں نے مولانا سے متعلق اپنے ذاتی تاثرات بھی قلمبند کیے ہیں ۔ لکھتے ہیں :
’’حضرت علامہ شبلی نعمانی اور مولانا عبد العزیز صاحب رحیم آبادی کے حالات میں ایک گونہ مناسبت معلوم ہوتی ہے۔ شبلی مرحوم نے سیرۃ النعمان کے علاوہ شاید ایک آدھ رسالہ فرعی اختلافات پر لکھا ہو، اس کے بعد انھوں نے قلم کا رخ اس طرف سے بالکل پھیر دیا، باقی عمر علمی اور تعلیمی خدمات میں صرف فرمائی۔ ندوۃ العلماء کی تاسیس فرمائی جس میں فقہی تنگ نظری اور فرعی مسائل پر عصبیت نما مباحث بالکل نہیں تھے۔ ادب اور تاریخ کی خدمت اس درس گاہ کا اہم کردار تھا، اور تصنیف و تالیف کے سلسلہ میں بھی بقیہ عمر میں ان کی توجہ علمِ کلام اور تاریخ کی طرف ہو گئی، خاص طور پر سیرت النبی ان کا دل پسند موضوع تھا،
[1] ہفت روزہ ’’الاعتصام‘‘ (گوجرانوالہ) ۴ ستمبر ۱۹۵۴ء