کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 678
وقت است کہ وقت بر سر آید ’’مولانا مرحوم کا غم کچھ معمولی نہیں کہ دلوں سے جلد مٹ سکے۔ ان کی جدائی کا صدمہ کوئی معمولی صدمہ نہیں کہ آنکھیں اشکباری سے جلدی سبکدوش ہوں ، بلکہ تھمتے تھمتے تھمیں گے آنسو رونا ہے یہ دل لگی نہیں ہے‘‘[1] مولانا امام خاں نوشہروی کی قیمتی یادداشتوں پر مشتمل ایک مضمون ’’ہمارے گزرے ہوئے قافلہ کی یاد‘‘ کے عنوان سے ہفت روزہ ’’الاعتصام‘‘ میں طبع ہوا تھا، اس مضمون میں مولانا رحیم آبادی کا ذکرِ خیر کرتے ہوئے اپنے قلبی جذبات کا اظہار ان الفاظ میں کیا: ’’صوبہ بہار کی شانِ توحید جس وجودِ گرامی سے دو بالا ہوئی، ان کے تذکرہ کے بغیر یہ مقالہ جسدِ بے روح ہو کر رہ جائے گا، یعنی مولوی عبد العزیز رحیم آبادی ترہتی ! زباں پہ بارِ خدایا یہ کس کا نام آیا کہ نطق نے بوسے میری زباں کے لیے ’’مرحوم ایک امیر گھرانے کے چشم و چراغ تھے۔ نازوں میں پلے۔ نعمتوں کی فراوانی میں پروان چڑھے، مگر تمام دولت، تمام سرمایہ، پوری زندگی تبلیغ و سنت کے لیے وقف کر دی۔ ہمارے میں آپ {إِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلّٰهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ } کے وہ عنوانِ زرّین تھے۔ ان کے دیکھنے والے اب بھی ہوں گے۔ ’’مرحوم کی زندگی اور اس کے مشاغل ہمارے پروگرام میں اب بھی تازگی پیدا کر سکتے ہیں ۔ بشرطیکہ ہم صحیح ولولہ کے ساتھ میدانِ عمل میں نکلیں ۔ ’’مولانائے رحیم آبادی مرحوم کی شمع ایمان سے صرف صوبہ بہار ہی روشن نہ تھا، بلکہ ہندوستان کے تمام حصے اس نور سے منور ہوئے۔ آل انڈیا اہلِ حدیث کانفرنس کے بانیوں میں ان کا نام نامی زیبِ عنوان تھا۔ کانفرنس کی تاسیس کے وقت سے لے کر اپنی زندگی کے آخری لمحوں تک وہ اس مجلس کے روحِ رواں رہے۔ کانفرنس انھیں کے خلوص و برکت سے ملک میں چمکی اور جب وہ لحد میں جا سوئے تو کانفرنس بھی نیم مردہ ہو کر رہ گئی ع
[1] ہفت روزہ ’’اہلِ حدیث‘‘ (امرتسر) ۳ اپریل ۱۹۱۸ء