کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 677
دلِ محزون کے تاثرات قلمبند کیے بغیر نہیں رہ سکے۔ ’’مولاناعبد العزیز مرحوم رحیم آبادی‘‘ کے زیرِ عنوان لکھتے ہیں :
’’ہر بلائے کز آسماں آید خانۂ بیکساں تلاش کند[1]
مقتدرِ قوم مولانا موصوف غفر اللہ لہ کی موت نے ہمارے ان زخموں پر از سر نو نمک پاشی کر دی ہے جو بسبب اپنی قدرے قدامت کے مندمل ہوتے جا رہے تھے۔ گویا اس حادثہ طرفہ نے مولانا ڈیانوی، مولانا غزنوی، حافظ صاحب وزیر آبادی، مولانا تلطف حسین و عبد السلام دہلوی، مولانا آروی، مولانا سہسوانی، مولانا عمر پوری مع فرزند، و مولانا بقاؔ غازی پوری اور مولانا محمد جامری (رحمہم اﷲ علیہم أجمعین) کی یاد پھر تازہ کر دی ہے۔
’’ہماری حالت بھی کس قدر عبرتناک ہے کہ آئے دن کے ناگہانی حوادث کا ملجا بنے ہوئے ہیں ۔ دنیا بھر کے آلام و مصائب کے مورد ہیں ۔ ہر دو تازیانہ عبرت جو عدالت آسمانی قوموں کی بیداری کی حرکت میں لاتی ہے۔ ہمارے قومی وجود پر دھڑا دھڑ برس رہا ہے۔ بجلی کی وہ چمک جو گُم کردگانِ راہ کے لیے خضر سبیل ہوا کرتی ہے ہمارے لیے مشعلِ ہدایت ہے مگر واحسرتا ! کہ ہمیں احساس تک نہیں کہ آخر یہ کم بختیاں کیا رنگ لائیں گی۔
’’حال یہ ہے کہ پنجہ قضا ہم سے جس عالم کو جھپٹ لیتا ہے پھر اس کا بدل میسر نہیں ہوتا۔ اگر اس میں کلام ہو تو وقتِ حاضر کا پچھلے دس سال سے موازنہ کیجیے اور ازراہِ انصاف فرمائیے کہ کونسی علمی صدارت خالی ہوئی جس کو ہم نے فوراً بھر دیا۔ چمنستانِ قوم میں کون سی بلبل دامِ اجل میں الجھی کہ دوسری عندلیبوں نے اس کی جگہ نغمہ آرائی اور خوش الحانی شروع کردی۔ دراصل یہ نتیجہ ہے ان جبلی کاہلیوں اور سستیوں کا جس نے آج یہ نازک وقت دکھایا کہ مدارسِ قوم ایک ایک کرکے ہمارے سامنے مٹ رہے ہیں ۔ مفسرین و شارحین فرداً فرداً طعمۂ اجل ہو رہے ہیں ۔ مصنّفین ہمارے دیکھتے ہوئے ہمیں الوداعی سلام کہتے جا رہے ہیں اور ہم ہاتھوں پر ہاتھ دھرے بیٹھے ہوئے تائیدِ آسمانی کے منتظر ہیں ۔ موافقتِ نعمت کی راہ دیکھ رہے ہیں ۔ دوستو!
[1] ’’آسمان سے اترنے والی ہر آفت بے کسوں کا گھر تلاش کرتی ہے۔‘‘