کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 676
بڑے با غیرت پکے مخلص بڑے با وفا۔
’’آپ کا اور آپ کے خاندان کا جماعت اہلِ حدیث پر خاص احسان ہے۔ آپ کے والد مرحوم شیخ احمد اللہ صاحب نے ہزارہا روپیہ کے خرچ سے پریوی کونسل لنڈن میں مقدمہ لڑ کر اہلِ حدیث کے حق میں ڈگری دلائی کہ یہ لوگ جہاں چاہیں نماز پڑھیں ، نہ ان کو کسی مسجد سے نکالا جا سکتا ہے نہ اہلِ حدیث ہونے کی وجہ سے کسی کو امامت سے علیحدہ کیا جا سکتا ہے۔
’’گزشتہ ایام میں سیتا مڑھی میں قربانی گائے کے متعلق مسلمانوں پر آفت آئی تو مولانا سینہ سپر ہو گئے۔ ہزارہا روپیہ دیوانی اور فوجداری کے مقدمات پر صَرف ہوئے، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مسلمانوں کو حسبِ منشا قربانی کرنے کا حق بدستور ملا۔
خدا بخشے بہت سی خوبیاں تھیں مرنے والے میں !
’’اللہ تعالیٰ مرحوم کو بخشے اور ہم غمزدوں کو آپ کا نعم البدل یا کم سے کم بدل ہی عطا کرے۔ مرحوم موضع رحیم آباد ضلع دربھنگہ کے معزز زمیندار خاندان سے تھے۔ بھائی اور بھائیوں کی اولاد بہت کافی ہے، مگر اپنی اولاد نرینہ نہیں ، متعدد لڑکیا ں ہیں ۔ مرحوم چونکہ عاشقِ سنت تھے۔ خدا نے غیر اختیاری فعل میں بھی آپ کو پابندِ سنت رکھا کہ لڑکا کوئی نہیں ، صرف لڑکیاں ہیں ۔ مرحوم کے خاندان اور وابستگان سے ہم کو اور ہم سے ان کو اس غم و اندوہ میں شرکت ہے۔ بزبانِ حال یہ شعر ہم پر صادق ہے:
آ عندلیب مل کے کریں آہ و زاریاں تو ہائے گل پکار میں چلاؤں ہائے دل
مولانا مرحوم کی عمر کا حساب مجھے ٹھیک معلوم نہیں ۔ لیکن تخمیناً ستر سال کے قریب ہوگی۔
باقی حالات جو صاحب بھیجیں گے درج کیے جائیں گے۔ میں تو اس وقت گویا اپنی آنکھوں کے پانی سے لکھ رہا ہوں ۔ اس لیے زیادہ لکھنے کی تاب نہیں ۔ إنا للّٰه و إنا إلیہ راجعون‘‘[1]
مولانا امام خاں نوشہروی کی تعزیتی تحریر:
مولانا امام خاں نوشہروی کو مولانا رحیم آبادی سے بڑی عقیدت تھی۔ ان کی وفات پر وہ اپنے
[1] ہفت روزہ ’’اہلِ حدیث‘‘ (امرتسر) ۲۹ مارچ ۱۹۱۸ء