کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 675
کے لیے یہی راہ ہے۔ بالآخر محفلِ اسلام کی یہ نورانی شمع ۴ جمادی الآخر ۱۳۳۶ھ/ ۱۷ مارچ ۱۹۱۸ء کو ہمیشہ کے لیے بجھ گئی۔ مولانا اپنے تمام عقیدت مندوں کو سوگوار چھوڑ کر عالمِ جاودانی کو سدھار گئے۔
مولانا ثناء اللہ امرتسری کا تعزیتی شذرہ:
مولانا ثناء اللہ امرتسری نے مولانا کی وفات پر اپنے تعزیتی شذرے میں لکھا:
’’من شاء بعدک فلیمت فعلیک کنت أحاذر
’’میں سفر میں تھا، مگر خیالی ڈاک رحیم آباد کی طرف برابر لگی ہوئی تھی کہ ایک روز غالباً منگل کی شب تھی، خواب دیکھا۔ خواب کا واقعہ تو اس وقت یاد نہیں مگر صبح کو میرے دل میں یہی تعبیر آئی کہ مولانا عبد العزیز رحیم آبادی ہم کو جدائی میں چھوڑنے والے ہیں ۔ ۲۲ مارچ کو مکان پر آتے ہی یہ خبر سنی کہ مولانا کے انتقال فرمانے کا تار آیا تھا، جس پر منیجر نے بصورت ضمیمہ خبر کو شایع کرا دیا۔
آہ ! میں اس غم کو کن لفظوں میں لکھوں ! میرا قلم لکھ رہا ہے، مگر آنکھیں جاری ہیں اور دل بے چین ہے۔ لیکن مومن کی شان یہ ہے کہ بجز اتنے کلمات کے کچھ نہ بولے جن کے بولنے کی خدا نے اجازت دی ہے: إنا للّٰه و إنا إلیہ راجعون۔ آہ ! ہماری جماعت کو باپ کی طرح کون ڈانٹے گا۔ مربی کی طرح ہماری کون خبر لے گا۔ ہماری کانفرنس کی صدارت کون کرے گا۔ مولانا ! آپ تو آرام میں جا پہنچے، مگر ہماری بھی کوئی خبر لے لیجیے۔ میں اب بھی وہی مصرع لکھتا ہوں جو آپ کی طرف سے خط فرحت مند نہ پہنچنے پر لکھا کرتا تھا:
گیرم کہ غمت نیست غم ما ہم زیست[1]
آہ ! عبد العزیز تو آج کہاں چلا گیا کہ ہم کو جواب نہیں دیتا۔ خواب میں اپنی منور صورت دکھا دے۔ مگر تجھے اپنے آرام اور شغل میں ہم غمزدوں کی کیا خبر۔ إنا للّٰه ۔۔۔!
مولانا مرحوم کون تھے؟ جن لوگوں کو آپ کی صحبت نصیب ہوئی ہے، وہی جان سکتے ہیں ۔
[1] ’’میں نے مانا کہ آپ کو کوئی غم نہیں ہے، کیا ہمارا بھی غم نہیں ہے؟!‘‘