کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 674
۱۲ مارچ ۱۹۱۳ء کو امرتسر میں آل انڈیا اہلِ حدیث کانفرنس کے سالانہ جلسہ کے موقع پر مولانا ثناء اللہ کے صاحبزادے مولانا عطاء اللہ کا نکاح تھا، جو مولانا امرتسری کی خواہش پر مولانا عبد العزیز رحیم آبادی نے پڑھایا۔[1] مرضِ وفات: مولانا ایک عرصے سے بیمار چلے آ رہے تھے۔ مختلف عوارض میں مبتلا تھے، لیکن اس حال میں دینی خدمات میں مستعد تھے۔ شدید بیماری اور بڑھاپے میں بھی دور دراز کے اسفار کیا کرتے تھے۔ مولانا ذیابیطیس کے مریض تھے۔ اس مرض میں آرام اور احتیاط دونوں لازم ہیں ۔ لیکن مولانا نے اپنی زندگی کا جو مقصد اور نصب العین مقرر کیا تھا، اس میں نہ آرام ہی کے لیے وقت تھا اور نہ احتیاط ہی کے تقاضے پورے ہو سکتے تھے۔ آسام سے لے کر پشاور تک اور ہمالیہ کی بلندیوں سے لے کر ارضِ جنوب میں مدراس تک مولانا تبلیغ اور نشر و اشاعتِ دین کی غرض سے گئے۔ ہر چہار جانب کے لوگوں کو مولانا سے عقیدت تھی اور سب کی دلدہی کا خیال کرنا آسان نہیں تھا۔ ایسی صورت میں مرض بڑھتا ہی گیا۔ ۱۹۱۷ء کے آخر میں مرض بہت بڑھ گیا۔ جسم میں زخم ظاہر ہونے لگے۔ دوسری طرف عیادت کنندگان کی بھی مستقل آمد ہوتی رہی۔ اصحابِ دہلی مستقل باری باری آتے۔ حافظ عبد الستار مولا نگری اور حکیم الفت حسین مستقل مولانا کی تیمار داری کرتے رہے۔ ڈاکٹر فرید بھی تقریباً روزانہ تشریف لاتے اور مولانا کی مرہم پٹی کرتے۔ وفات سے صرف دو دن قبل ’’اہلِ حدیث‘‘ (امرتسر) میں مولانا کے لیے دعائے صحت کی درخواست شائع ہوئی تھی۔ اس میں لکھا تھا: ’’حضرت مولانا رحیم آبادی عرصہ چار ماہ سے علیل ہیں ۔ بدن پر زخم نکلتے ہیں ، ایک اچھا ہوتا ہے، اس کی بجائے کئی ایک نکل آتے ہیں ۔ ضعف میں ترقی لازم ہے۔ ناظرین سے درخواست ہے کہ اس مفید وجود کے لیے اللہ تعالیٰ سے دعا فرمائیں ۔ خدا مولانا کو صحتِ عاجلہ کاملہ بخشے۔‘‘[2] بالآخر وہ گھڑی آ گئی جس کا انتظار سب کو ہے۔ موت سے کس کو رستگاری ہے، ہر خاص و عام
[1] ہفت روزہ ’’اہلِ حدیث‘‘ (امرتسر) ۲۱ مارچ ۱۹۱۳ء [2] ہفت روزہ ’’اہلِ حدیث‘‘ (امرتسر) ۱۵ مارچ ۱۹۱۸ء