کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 673
کسی موقع پر حاضرین کو مذاقیہ فرمایا: تم لوگوں نے اس جوان کو مولانا کہہ کر خراب کر دیا، میں تو کبھی اس کو مولوی بھی نہیں کہتا۔ آپ جب ہم کو کسی امر میں ڈانٹتے تو میں یہ شعر پڑھتا:
عاشقاں از ہیبت تیغ تو سر پیچیدہ اند جامی بیچارہ را چوں دیگراں پنداشتی[1]
واحسرتا ! حافظ محمد صدیق صاحب کے اس مضمون سے مجھے وہ صحبت یاد آگئی۔ ایک طرف مولانا شمس الحق، دوسری طرف مولانا حافظ عبد اللہ، تیسری طرف مولانا شاہ عین الحق، چوتھی طرف مولانا رحیم آبادی وغیرہ حضرات جلسہ آرہ میں تشریف فرما ہوتے تھے، یہ لوگ تو خود مزے میں جا پہنچے، مگر ہم کو بدمزہ کر گئے۔ آہ!
غالبؔ ہے نہ شیفتہؔ نہ نیرؔ باقی وحشتؔ ہے نہ سالکؔ نہ انورؔ باقی
حالیؔ اب اسی کو بزمِ یاراں سمجھو یاروں کے جو داغ ہیں دل پر باقی‘‘[2]
مولانا رحیم آبادی کی وفات کے کئی برس بعد مولوی قدرت اللہ بیا پوری نے ان کا منظوم ’’وفات نامہ‘‘ لکھا، جو ’’اہلِ حدیث‘‘ (امرتسر) میں طبع ہوا۔ مولانا اس کے آغاز میں اپنے مختصر نوٹ میں لکھتے ہیں :
’’حضرت مولانا حافظ عبد العزیز صاحب رحیم آبادی ضلع دربھنگہ جماعتِ اہلِ حدیث کے محترم بزرگ اور بانیانِ اہلِ حدیث کانفرنس میں رکنِ اعظم، ’’حسن البیان‘‘ کے مصنف تھے، گو آپ کے انتقال کو آج چودہ سال ہو گئے ہیں ، لیکن صوبہ بہار میں خاص کر ان کے حلقۂ اثر میں ان کی یاد ہنوز تازہ ہے۔ ایسے بزرگ کی یاد تازہ کرنے کو مولوی قدرت اللہ صاحب نے مندرجہ ذیل نظم لکھی ہے۔ جس قدر اوصاف اس نظم میں جمع کیے ہیں ، جہاں تک میں جانتا ہوں پورے نہیں ہوئے۔ مرحوم ایک ایسے محسنِ احباب تھے کہ میں اس وقت ان کی یاد سے آب دیدہ ہو کر یہ حروف لکھ رہا ہوں اور میری زبان پر جاری ہے:
خدا بخشے بہت سی خوبیاں تھیں مرنے والے میں ‘‘[3]
[1] ’’عاشق لوگ تیری تیغ کی ہیبت سے سر خم نہیں کرتے، مگر جامی بے چارے کو تم نے کیونکر ان عاشقوں جیسا سمجھ لیا ۔۔۔؟!
[2] ہفت روزہ ’’اہلِ حدیث‘‘ (امرتسر) ۲۶ مارچ ۱۹۲۰ء
[3] ہفت روزہ ’’اہلِ حدیث‘‘ (امرتسر) ۲۱ فروری ۱۹۳۰ء