کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 672
باہوش بالغ نہیں ہوئے۔‘‘[1]
مولانا رحیم آبادی کی وفات کا غم مولانا امرتسری کے سینے میں ہمیشہ تازہ رہا۔ مولانا عبد الوہاب دیودھاوی نے ’’رحیم آبادی خاندان اور ان کے نونہالان‘‘ کے عنوان سے ایک مضمون لکھا جو ’’اہلِ حدیث‘‘ (امرتسر) کی ۷ اکتوبر ۱۹۲۷ء کی اشاعت میں طباعت پذیر ہوا۔ مولانا امرتسری اس مضمون کے آخر میں لکھتے ہیں :
’’نامہ نگار نے رحیم آبادی خاندان کا ذکر کر کے ہمارے ایک پرانے زخم کو ہرا کر دیا۔ ہم نے مولانا محمد یٰسین مرحوم کو تو دیکھا نہ تھا۔ ہاں ان کے بڑے بھائی مولانا عبد العزیز رحیم آبادی مغفور کو دیکھا ہے۔ آہ مولانا ! آپ کیا تھے۔ دوستوں کے مخلص، چھوٹوں کے شفیق باپ، عالم، عابد، خوش بیان واعظ، امیر، زاہد، فیاض، سخی، مولانا ! خدا آپ کو اعلیٰ علیین میں جگہ دے اور جنت الفردوس نصیب کرے، آہ!
روئے گل سیر ندیدیم و بہار آخر شد‘‘[2]
مولانا کی سوانح پر حافظ محمد صدیق مرولوی مظفر پوری کا ایک مضمون دو اقساط پر ہفت روزہ ’’اہلِ حدیث‘‘ امرتسر میں طبع ہوا۔ مضمون کے اختتام پر مولانا ثناء اللہ امرتسری نے ذیل کا نوٹ لکھا:
’’قابل سوانح نگار نے بہت کچھ لکھا ہے مگر میں نے جو بات قابلِ قدر مولانا مرحوم میں دیکھی (جس کی وجہ سے میں اس وقت مرحوم کی یاد میں زار و زار رو رہا ہوں ، رحمہ اللہ) یہ تھی کہ آپ دوستوں کے بڑے قدر دان تھے۔ مخلصوں پر فدا تھے۔ ایامِ جلسہ دہلی میں ایک حجام آپ نے بلایا۔ اس سے پیار کی باتیں کیں ۔ میں نے پوچھا: کون ہے ؟ فرمایا: اس کا باپ میرا دوست تھا، ہم ایامِ طالب علمی میں اس کے حمام سے نہایا کرتے تھے۔ پھر آپ اس کے ساتھ اس کے مکان پر بھی گئے اور اس پر بہت کچھ نظرِ عنایت فرمائی۔ طبیعت میں غصہ بے حد تھا، مگر غیر قائم، چڑھا اور اترا۔ مجھے خط میں کبھی مولوی نہ لکھتے بلکہ حبی ثناء اللہ لکھتے۔ ایک دفعہ
[1] ہفت روزہ ’’اہلِ حدیث‘‘ (امرتسر) ۱۳ مارچ ۱۹۴۲ء
[2] ’’ہم نے پھول کے چہرے جی بھر کر نہیں دیکھا تھا کہ موسمِ بہار رخصت ہو گیا۔‘‘