کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 671
یاد ہیں لیکن کون شعر کس شاعر کا ہے، اکثر نہیں یاد رکھتا، لیکن میں نے جتنے اشعار پڑھے، ان شاعروں کا نام بھی بتا دیا۔‘‘[1]
احباب و رفقاء:
مولانا دوستوں کے دوست تھے۔ ان کے احباب و رفقاء کی ایک بڑی تعداد تھی۔ تاہم احبابِ خاص جن سے مولانا کی زبردست ذہنی ہم آہنگی اور قلبی وابستگی تھی، ان میں مولانا نے نسبتاً طویل عمر پائی، مولانا رحیم آبادی کی وفات کے چند ماہ بعد ہی حافظ عبد اللہ غازی پوری نے بھی اس دنیائے دوں سے کنارہ کیا۔ مولانا رحیم آبادی اپنے مرحوم احباب کو یاد کرتے ہوئے ’’آل انڈیا اہلِ حدیث کانفرنس‘‘ کے سالانہ اجلاس منعقدہ بنارس ۱۳۳۴ھ / ۱۹۱۶ء میں اپنے خطاب میں فرماتے ہیں :
’’مجھے وہ زمانہ یاد آتا ہے جب ہمارے احباب آپس میں ایسے ملتے تھے ، جیسے چاہیے۔ مولانا عبد الغفار صاحب چھپروی، مولانا شمس الحق ڈیانوی، مولانا محمد ابراہیم صاحب آروی، مولانا حافظ عبد اللہ صاحب غازی پوری، ان میں سے بعض تو اس دنیا سے چلے گئے۔ جناب حافظ صاحب بھی ہم سے دور ہو گئے ہیں ۔ اس جدائی میں اکیلا روتا ہوں ۔ واحسرتا یاران من تنہا مرا بگذاشتند‘‘[2]
مولانا ثناء اللہ امرتسری سے تعلقِ خاص:
مولانا ثناء اللہ کو فاضل محدث رحیم آبادی سے خاص عقیدت اور محبت تھی۔ وہ انھیں اپنے لیے بمنزلہ والد کے سمجھتے تھے۔ ایک مقام پر لکھتے ہیں :
’’مولانا رحیم آبادی مغفور کا نام دیکھ کر بے ساختہ مونہہ سے نکلا:
و احسرتا یاران من تنہا مرا بگذاشتند
خدا ممدوح کو اور ان کے ساتھ ان کے جملہ احباب کو جنت الفردوس میں جگہ دے۔ سچ تو یہ ہے کہ ہم دونوں (ابو الوفا، ابراہیم) مرحوم کے انتقال سے گویا یتیم ہو گئے۔ ابھی تک
[1] حسن البیان والے مولانا عبد العزیز رحیم آبادی (ص: ۱۰۹، ۱۱۰)
[2] روداد سال چہارم و پنجم اہلِ حدیث کانفرنس (ص: ۸۸)